Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عورت پر اشعار

عورت کو موضوع بنانے

والی شاعری عورت کے حسن ، اس کی صنفی خصوصیات ، اس کے تئیں اختیار کئے جانے والے مرداساس سماج کے رویوں اور دیگر بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے ۔ عورت کی اس کتھا کے مختلف رنگوں کو ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

منور رانا

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

اسرار الحق مجاز

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

عباس تابش

دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں

کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

ساحر لدھیانوی

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں

یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

منور رانا

بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں

اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں

افتخار عارف

بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے

میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے

اسرار الحق مجاز

ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا

جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں

بشیر بدر

سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا

ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا

احمد سلمان

شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس

رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

منیر نیازی

ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی

دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی

زہرا نگاہ

عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی

پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا

زہرا نگاہ

کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو

سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں

حمیدہ شاہین

طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ

مرا شباب بھی لوٹا دو میری مہر کے ساتھ

ساجد سجنی لکھنوی

مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

ثروت حسین

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

علامہ اقبال

تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں

سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں

حبیب جالب

تمام پیکر بدصورتی ہے مرد کی ذات

مجھے یقیں ہے خدا مرد ہو نہیں سکتا

فرحت احساس

عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا

اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے

تنویر سپرا

ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ

وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے

شکیل جمالی

یہ عورتوں میں طوائف تو ڈھونڈ لیتی ہیں

طوائفوں میں انہیں عورتیں نہیں ملتیں

مینا نقوی

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

انجم سلیمی

گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں

لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں

منور رانا

عورت اپنا آپ بچائے تب بھی مجرم ہوتی ہے

عورت اپنا آپ گنوائے تب بھی مجرم ہوتی ہے

نیلما ناہید درانی

عورتیں کام پہ نکلی تھیں بدن گھر رکھ کر

جسم خالی جو نظر آئے تو مرد آ بیٹھے

فرحت احساس

عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں

فرحت زاہد

تم بھی آخر ہو مرد کیا جانو

ایک عورت کا درد کیا جانو

سیدہ عرشیہ حق

بنت حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے

اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے

ثروت زہرا

یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک

مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں

اکبر الہ آبادی

عورت ہو تم تو تم پہ مناسب ہے چپ رہو

یہ بول خاندان کی عزت پہ حرف ہے

سیدہ عرشیہ حق

اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں دیتے

ہماری بیٹی بلبل ہے مگر پنجرے میں رہتی ہے

رحمان مصور

ہے کامیابیٔ مرداں میں ہاتھ عورت کا

مگر تو ایک ہی عورت پہ انحصار نہ کر

عزیز فیصل

مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے

لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

قتیل شفائی

جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں

وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی

کشور ناہید

اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے

دوسری عورت پہلی جیسی کب ہوتی ہے

ف س اعجاز

دیکھ کر شاعر نے اس کو نکتۂ حکمت کہا

اور بے سوچے زمانہ نے اسے عورت کہا

شاد عارفی

خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے

ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں

بلقیس ظفیر الحسن

خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر

سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی

عبد الحمید عدم

قصۂ آدم میں ایک اور ہی وحدت پیدا کر لی ہے

میں نے اپنے اندر اپنی عورت پیدا کر لی ہے

فرحت احساس

جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم

جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو

رضیہ فصیح احمد

نکل کے خلد سے ان کو ملی خلافت ارض

نکالے جانے کی تہمت ہمارے سر آئی

نامعلوم

زمانے اب ترے مد مقابل

کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

فریحہ نقوی

ان کو بھی ترے عشق نے بے پردہ پھرایا

جو پردہ نشیں عورتیں رسوا نہ ہوئیں تھیں

مصحفی غلام ہمدانی

شو کیس میں رکھا ہوا عورت کا جو بت ہے

گونگا ہی سہی پھر بھی دل آویز بہت ہے

کرشن ادیب

عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں

زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں

زبیر رضوی

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں

میں جنت‌ انساں کا پتا ڈھونڈھ رہی ہوں

ادا جعفری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے