مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نئے ہم سفر تلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوف صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.