aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غزل اردو شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ غزل پر بہت زیادہ یلغار ہوئی لیکن اب تک وہ اپنی تابانی کے ساتھ جگمگارہی ہے ۔ غزل کی تہذیب اور اردو تہذیب ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔جس طرح تہذیب کروٹ لیتی ہے اسی طریقے سے غزل بھی اپنا رنگ بدلنے کی کوشش کر تی ہے۔ غزل پر لوگوں نے بے پناہ توجہ دی، کبھی بھی اس صنف سخن کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑا لیکن اس کے باوجود تنقیدی طور پر جتنی توجہ دی جانی چاہیے تھی (اس کتا ب کے لکھے جانے تک )نہیں دی جاسکی ہے ۔ اس پر بھر پور گفتگو کرکے اس کے صحیح مقام و مرتبے کو متعین نہیں کیاجاسکا ۔ ایسی کوئی کوشش نہیں ہوئی جس میں غزل کے جمالیاتی و افادی پہلو کے خد وخال کا درست اندازہ ہو۔ایسا بھی نہیں ہے کہ غزل پر گفتگو نہیں ہوئی ہو بلکہ اس کے بنیادی اصول کے سمجھنے اور سمجھا نے کی کوشش ہمیشہ سے رہی ہے ۔ کلاسیکی غزل ، دبستان دہلی کی غزل ، دبستان لکھنوکی غزل ، خارجیت و داخلیت، جدید غزل ، جدیدیت کی غزل اور مابعد جدید یت کی غزل، ہر ایک پرجزوی طور پر بات ہوئی ہے لیکن اس کتاب میں انہوں نے کلی طور پر بات کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب میں صنف غزل ، غزل اور تغزل ، غزل کا جمالیاتی پہلو، اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ ، جدید اردو غزل ، غزل کے جدید رجحانا ت ، اردو غزل میں ہیئت کے تجربے اور غزل کے مستقبل پر تنقید ی و فلسفیانہ گفتگو ہے ۔ غزل کا فنی مطالعہ کر نے والوں کے لیے یہ کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets