aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علماء اسلام میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جن کی تصانیف کے اوراق اگر ان کی زندگی کے ایام پر بانٹ دیے جائیں تو اوراق کی تعداد زندگی کے ایام سے زیادہ ہوجائے امام ابن جریر طبری ،حافظ خطیب بغدادی امام فخر الدین رازی،حافظ ابن جوزی وغیرہ متعدد نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں ہندوستان میں اس سلسلے کا اخیر نام حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا ہے،حضرت تھانویؒ کی یہ کتاب زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی دکھاتی ہے اس کتاب میں اصلاح امت کی کوشش میں علمی و عملی زندگی کے ہر گوشے پر نظر ڈالی گئی ہے، بچوں سے لیکر بوڑھوں تک،عورتوں سے لیکر مردوں تک،جاہلوں سے لیکر عالموں تک،عام لوگوں سے لیکر صوفیوں تک،درویشوں اور زاہدوں تک،غریبوں سے لیکر امیروں تک کی اصلاحی باتیں اس کتاب میں درج ہیں،پیدائش،شادی بیاہ،غمی اور دوسری تقریبوں اور اجتماعوں تک کےاحوال پر انکی نظرپڑی،اورشریعت کےمعیارپرجانچ کر ہرایک کاکھراکھوٹاالگ کیا،رسوم و بدعات اور مفاسد کے ہر ایک روڑے اور پتھر کو ہٹاکر صراط مستقیم کی راہ دکھائی،تبلیغ،تعلیم،سیاست،معاشرت،اخلاق و عادات اور عقائد میں دینِ خالص کے معیار سے جہاں کوتاہی نظر آئی اسکی اصلاح کی،فقہ کے نئے نئے مسائل اور مسلمانوں کی نئی نئی ضرورتوں کے متعلق اپنے نزدیک پورا سامان مہیا کردیا،یہ کتاب در اصل قسط وار دار العلوم دیوبند کےمشہور ماہنامہ"القاسم"میں شائع ہوئی تھیں بعد میں اس کو باقاعدہ کتابی شکل میں پیش کر دیا گیا۔