aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آل احمد سرور اردو کے سر کردہ اور نامور نقاد تھے۔ آزادی کے بعد ہماری تنقید کو جن ناقدین نے اپنے علم اور اپنی بصیرت سے توانا کیا اور جس کے وزن اور وقار میں غیر معمولی اضافہ کیا اُن میں آل احمد سرور کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مغربی افکار تصورات اور خیالات کو حاصل کیا اور مغربی تہذیب اور افکار کی میراث سے بھی براہ راست استفادہ کیا۔ تاہم مغرب کی چکا چوند سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ وہ ایک غیرجانبدار، مصنف مزاج اور کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں۔انہوں نے کبھی کسی نظریہ کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا،خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نذر کا سودا نہیں کیا۔ انہوں نے ہر دور میں ادب کی صالح اور صحت مند روایات و رجحانات کی پاسداری کی۔ دانشوری کی زندہ روایت، تنقید کے ایک سربراہ آوردہ رہنما کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا مستقل مقام بنا لیا۔ آل احمد سرور نے بے شمار تنقیدی مضامین لکھے۔ زیر نظر "مسرت سے بصیرت" تک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس کتاب میں مختلف موضوعات پر تیرہ تنقیدی مضامین شامل ہیں۔
सुरूर, आल-ए-अहमद (1911-2002) उर्दू आलोचना को बौद्धिक तेज़ी, वैचारिक फैलाव और दृष्टि की व्यापकता देने वाले प्रमुख आलोचक और बुद्धिजीवी। बदायूँ (उत्तर प्रदेश) में जन्म। उर्दू और अंग्रेज़ी पर समान अधिकार। मुस्लिम यूनिवर्सिटी अलीगढ़ में उर्दू के प्रोफ़ेसर रहे।
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free