aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
کلیم الدین کی یہ کتاب 1944میں شائع ہوئی تو اردو والوں کو کچھ اطمینان ہوا کیونکہ انہوں نے داستان گوئی کی ستائش کی تھی۔ پہلے یہ کتاب مستقل معاصر میں شائع ہوتی رہی تھی بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آئی۔ تقریبا 200 صفحات پر مشتمل کلیم الدین احمد کی یہ کتاب داستان کے فن پر نہایت اہم ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس کتاب میں داستان کی تعریف، داستان کی تکنیک، طلسم ہوشربا، بوستان خیال، مختصرداستانیں اور منظوم داستانوں پر کافی عالمانہ گفتگو کی ہے۔ کتاب کا مطالعہ كلیم الدین كی تنقید شعور کو واضح کرتا ہے کہ ان کے نزدیک تنقید كا واسطہ ادراك سے ہے تاثرات سے نہیں،ان کی نثر میں قطعیت ہے ،یعنی وہ جو كچھ كہنا چاہتے ہیں وہی بات بالكل اسی طرح قارئین كے ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔اس میں كسی طرح كا ابہام نہیں ہوتا۔اپنی بات كو حوالوں اورمثالوں سے مدلل اور باوزن بناتے ہیں۔ان كے تنقیدی شعور کاباریك بینی سے جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے كہ انھوں نے تنقیدی شعوراور آگہی كا اطلاق ایك مخصوص نقطہ نظر كے تحت كیا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets