گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
تشریح
اس شعر میں کوئی گہرے معنی نہیں۔ ہو سکتا ہے غالبؔ نے یہ شعر کسی دوست کی شکایت کے جواب میں لکھا ہو کہ آپ نے تو مجھے بھلا ہی دیا۔ بہرحال شعر دوست کے لیے کہا گیا ہو یا محبوب کے لیے، اس میں بھی بتایا گیا ہے کہ دنیاوی مصروفیات، الجھنوں اور پریشانیوں کے باوجود کوئی اپنے چہیتوں کو بھول نہیں جاتا، چہ جائے یہ کہ اُسے جو اس کی سانسوں میں بسا ہو۔ متاخرین میں فراقؔ نے بھی اسی سے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے:۔
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
لیکن غالبؔ، غالبؔ ہیں۔ وہ سیدھی سی بات میں بھی اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ پہلے ’’ستم ہائے روزگار‘‘ پر بات کر لیتے ہیں۔ غالبؔ کے کلام میں ہائے ہائے کی آوازیں اکثر گونجتی رہتی ہیں اور وہ الفاظ کی جمع بنانے میں ہائے کا استعمال بہت کرتے ہیں۔ غلطی ہائے مضامین، خندہ ہائے گل، کاوش ہائے مژگاں، اندیشہ ہائے دوردراز وغیرہ وغیرہ۔ پھر ستم کے ساتھ تو ہائے عین مناسب ہے۔ روزگار دنیا اور زمانہ کو کہتے ہیں۔ شاعر مخاطب سے کہتا ہے کہ میں دنیا کے جھمیلوں میں کتنا ہی کیوں نہ پھنسا رہا لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا۔ لیکن ڈھکے چھپے انداز میں جو بات کہی وہ بڑی دلچسپ ہے۔ زمانہ کے ستم کیسے بھی رہے ہوں لیکن ان میں وہ بات کہاں جو تیرے ستم میں ہے۔ دنیا کے ستم تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن ترے ستم میں اک لطف، ایک لذت ہے۔ اور زمانہ کے ہر ستم پر مجھے تیری یاد ستاتی رہی اور اس طرح روزگار کے کسی ستم نے مجھے تیری یاد سے غافل نہیں ہونے دیا۔ زمانہ سے ملنے والے دکھ، آدمی وقت کے ساتھ بھول جاتا ہے لیکن محبوب کے ستم عاشق کو کبھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ محبوب کے دیئے ہوئے درد سے بڑھ کر نہیں اور ایک لمحہ بھی اس سے نجات نہیں۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.