Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
دلچسپ موضوعات اور معروف شاعروں کے منتخب ۲۰ اشعار
معنی
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
"سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا" حیدر علی آتش کی غزل سے
Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف ہے۔ غزل عربی لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا۔ ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔ غزل کی ابتدا عرب سے ہوئ وہاں سےایران پہنچی اور فارسی ادب کے راستے اردو ادب میں مقبول ہوگئ اور بقول رشید احمد صدیقی یہ اردو شاعری کی آبرو ہے۔ ا س کا ترنم اور موسیقی سے بھی گہرا تعلق ہے۔
غزل ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو ہر شعر کےآخر میں دہرایا جائے۔ قافیہ وہ ہم آواز الفاظ ہوتے ہیں جو ردیف سے پہلے آتے ہیں
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اس میں سراب اور حباب قافیے ہیں اور"سی ہے" ردیف ہے۔ مطلع غزل کا پہلا شعر ہوتا ہے جس میں شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں. بعد کےاشعار میں پہلے مصرعے میں یہ پابندی نہیں ہوتی۔ آخری شعر جس میں شاعر کا تخلص استعمال ہوتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔
غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک اکائ ہوتا ہے، جس میں الگ الگ مکمل مضمون باندھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنی ہو سکتی ہے۔ غزل کےموضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں جذبات کا اظہار، ہجر و وصال کی کیفیت ، شکایت زمانہ، تصوف اورحقیقت و عرفان شامل ہیں۔
راج کپور کی فلم "دیوانہ" کے ایک مشہور گانے کا مکھڑا دراصل حیدر علی آتش کا شعر ہے، جس میں حسرت جے پوری نے ذرا سا تصرف کر دیا تھا۔ آتش کا شعر ہے
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھے کو بھی محبت دی ہے
فلمی گانے میں شعر کا دوسرا مصرع یوں بدل دیا گیا
" اسی مالک مجھے بھی تو محبت دی ہے"
خواجہ حیدر علی آتش( 1778_1847) کی پیدائش فیض آباد میں ہوئ تھی۔ بہت شان دار اور خوبرو تھے. وضع قطع اپنے وقت کے"بانکوں" کی سی بنائے رکھتے تھے، تلوار بازی سیکھی تھی۔ کم سنی سے"تلوارئے" مشہور ہو گئےتھے، شاعری سے شغف بھی بچپن سے تھا۔ نواب مرزا محمد تقی خاں ترقی، رئیس فیض آباد، نے ان کو ملازم رکھ لیا تھا۔ جب نواب فیض آباد چھوڑ کر لکھنو آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنو منتقل ہو گئے۔ ان کی غزلوں میں لکھنویت کا رنگ ضرور ہے لیکن خوشبو دہلی کی ہے۔ ناسخ سے ان کی معاصرانہ چشمک چلتی رہتی تھی۔ آتش آزاد منش تھے نواب کےانتقال کے بعد کسی کی نوکری نہیں کی۔ بعض تذکروں کے مطابق واجد علی شاہ اپنے ایام شہزادگی سے ہی 80 روپے ماہانہ دیتے تھے۔ اخری وقت تک آتش کے گھر کے باہر ایک گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔ایک تلوار کمر میں باندھے ، ترچھی ٹوپی لگائے سپاہیانہ بانکپن آخر تک قائم رکھا ۔
شہر آشوب اردو شاعری کی ایک کلاسیکی صنف سخن ہے جو ایک زمانے میں بہت لکھی گئ تھی۔ یہ ایسی نظم ہوتی ہے جس میں کسی سیاسی معاشرتی اور اقتصادی بحران کی وجہ سے کسی شہر کی پریشانی اور بربادی کا حال بیان کیا گیا ہو ۔ شہر آشوب مثنوی، قصیدہ، رباعی، قطعات، مخمس اور مسدّس کی شکلوں میں لکھے گئے ہیں۔ مرزا محمد رفیع سودا اور میر تقی میرؔ کے شہر آشوب، جن میں عوام کی بے روزگاری، اقتصادی بدحالی اور دلّی کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے، اُردو کے یادگار شہر آشوب ہیں۔ نظیر اکبرآبادی نے اپنے شہر آشوبوں میں آگرے کی معاشی بدحالی، فوج کی حالتِ زار اور شرفا کی ناقدری کا حال بہت خوبی سے پیش کیا ہے. 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد دلّی پر جو قیامت ٹوٹی، اسے بھی دلّی کے بیشتر شعرا نے اپنا موضوع بنایا ہے، جن میں غالب، داغ دہلوی اور مولانا حالی شامل ہیں۔ 1954 میں حبیب تنویر نے نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر مبنی اپنے مشہور ڈرامے" آگرہ بازار" میں ان کے ایک شہر آشوب کو بہت موثر ڈھنگ سے اسٹیج پر گیت کی شکل میں پیش کیا تھا۔
گذشتہ برس دنیا کی معتبر انگریزی ڈکشنری کیمبرج میں اردو زبان کا سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ "اچھا" شامل کر لیا گیا۔ "اچھا" لفظ شامل کیے جانے کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مزکورہ لفظ بھارتی انگریزی میں بھی عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈکشنری میں "اچھا" کو شامل کرتے ہوئے اس کے معنی خوشی اور حیرت کے اظہار کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اور ساتھ ہی جملوں کو استعمال کرنے کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔
لیکن اردو میں لفظ "اچھا" کئ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر: مناسب، ٹھیک، درست، بُرا کی ضد، بہت خوب، (طنزاً)، تسلی، اطمینان، دیکھا جائے گا، سمجھے؟، سن لیا؟ (تاکید یا تنبیہ کے لیے)، اجازت ہے ؟ جیسے مشہور فلمی گانا
" اچھا! تو ہم چلتے ہیں "
یہ لفظ تندرست، بے روگ ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالب کا یہ شعر
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
" ہجو" ایک شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی شخص یا حریف کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے۔ بعض لوگ ہجو کو قصیدے ہی کی ایک قسم مانتے ہیں۔ اردو میں باقاعدہ طور پر ہجو گوئی کا آغاز محمد رفیع سودا (1713 .1781) سے ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ہجووں کے لئے قصیدہ ، مثنوی ، قطعہ، غزل ، رباعی ، غرض سبھی اصناف سخن استعمال کئے ہیں
محمد حسین آزاد ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں کہ سودا کا ”غنچہ“ نامی ایک غلام تھا جو ہر وقت خدمت میں رہتا تھا اور ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے" ارے غنچے لا تو قلم دان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ "
سودا نے مختلف قسم کی ہجویات کہی ہیں۔ وہ جو معاصرانہ چشمک کی چھیڑ چھاڑ سے بھر پور ہیں یا پھر اخلاق کی اصلاح کے لئے لکھی ہیں یا جن میں اپنے دور کی سیاسی ابتری اور مالی بدحالی پر طنز ہے اور مضحکہ اُڑایا گیا ہے۔ سودا نے ایک ہاتھی اورگھوڑے کی بھی ہجویں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور "تضحیک روزگار“ بظاہر ایک ناتواں گھوڑے کی ہجو ہے لیکن دراصل یہ مغلیہ سلطنت کے آخری دور کا استعارہ ہے جو اس دور کی سیاسی اور معاشی بدحالی کا ترجمان ہے۔
پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی
ممتاز شاعروں کا منتخب کلام