Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دلچسپ موضوعات اور معروف شاعروں کے منتخب ۲۰ اشعار
اردو کا پہلا آن لائن کراس ورڈ معمہ۔ زبان و ادب سے متعلق دلچسپ معمے حل کیجیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کیجیے۔
معمہ حل کیجیےمعنی
آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط
کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے
"ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے" عازم کوہلی کی غزل سے
نئی اور پرانی اردو و ہندی کتابیں صرف RekhtaBooks.com پر حاصل کریں۔
Rekhtabooks.com کو براؤز کریں۔Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر شاعر تھے۔ دونوں نے مرثیہ کو معراج کمال تک پہنچایا۔ ان کے زمانے میں پورا لکھنو دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ انیس کے طرفدار انیسیے اور دبیر کے حامی دبیریے کہلاتے تھے، مگر دونوں اساتذہ آپس میں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب 1874 میں انیس کا انتقال ہوا تو دبیر ان کی نعش پر روتے ہوئے گئے اور فرمایا کہ ایسے معجز بیان، فصیح اللسان، قدردان کے اٹھ جانے سے اب کچھ لطف نہ رہا۔ انھوں نے انیس کے انتقال پر وہ معرکہ آرا تاریخی قطعہ بھی کہا، جس کا آخری شعر یہ ہے:
آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس
یہی شعر انیس کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔
جوش ملیح آبادی اور شاہد دہلوی کے درمیان ایک مناشقہ سن ساٹھ کی دہائ میں اردو رسائل کے ذریعے ہوا تھا۔ ماہنامہ 'افکار' کا مشہور زمانہ جوش نمبر جو پہلی بار صہبا لکھنوی صاحب نے1961 میں شائع کیا تھا، اس میں شاہد احمد دہلوی کا مضمون "جوش ملیح آبادی دیدہ و شنیدہ" شامل تھا۔ اس مضمون کو جوش صاحب نے اپنی بے عزتی اور توہین سمجھا۔ جواباً 1962 میں ماہنامہ افکار ہی میں جوش کا ایک طویل مضمون "ضرب شاہد بفرق شاہد باز" شائع ہوا جس میں جوش نے ناراض ہو کر نہ صرف شاہد احمد دہلوی کے ادبی مرتبے کی دھجیاں آڑائیں تھیں، بلکہ ان کے والد ڈپٹی نذیر احمد کو بھی نہیں بخشا تھا۔
اس کے جواب میں شاہد احمد دہلوی صاحب نے ماہنامہ 'ساقی' کا ضخیم جوش نمبر 1963 میں شائع کر دیا جس میں ملک بھر سے جوش کے خلاف مضامین لکھوائے۔ اس نمبر کی تمام کاپیاں فوری بک گئی تھیں۔ 6 روپے کے اس رسالے کو لوگ 3500 روپے میں خریدنے کو بھی تیار تھے مگر مل ہی نہیں رہا تھا۔ لوگوں کے اصرار کے باوجود شاہد احمد دہلوی صاحب دوسرا ایڈیشن چھاپنے کو تیار نہ ہوئے۔
" افشاں" سونے یا سنہری بُرادے کو کہتے ہیں جو عورتیں سنگھار کے طور پر مانگ میں یا ماتھے پر چھڑکتی ہیں۔ خاص طور پر دلہن کی مانگ میں افشاں سجائ یا "چُنی" جاتی تھی ۔ قمر جلالوی کا شعر ہے :
قمرؔ افشاں چُنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں
اردو میں لفظ 'افشاں' چھڑکنے، جھڑنے یا بکھیرنے کے معنوں میں لاحقے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے نام "مہر افشاں" (محبت بکھیرنے والی ) اور نور افشاں رکھے جاتے ہیں ۔ کسی شعر میں آسمان کسی کی قبر پر " شبنم افشانی" کرتا ہے تو کہیں کسی کی باتوں سے "گُل افشانی" ہوتی ہے. یعنی پھول بکھیرے جاتے ہیں .
غالب کا مشہور شعر ہے:
پھر دیکھئیے اندازِ گُل افشانیِ گُفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
" گُل افشانیِ گُفتار‘‘ کے لیے اردو میں ’’پھول جھڑنے‘‘ کا محاورہ بھی موجود ہے۔ احمد فرازکا ایک شعر بہت مشہور ہوا ہے ۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
اور ایک لفظ ہے "اِفشا" جس کے معنی ہیں بھید کھل جانا یا ظاہر ہو جانا۔ اردو شاعری میں ہزاروں اشعار نگاہوں سے رازِ عشق اِفشا ہونے کا حال بیان کرتے ہیں۔ اور جرم کا بھید جاننے کے لئے تھانے میں "تفتیش" بھی کی جاتی ہے ۔
اردو نے عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ کو اپنایا ہے، لیکن وہ کچھ مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک لفظ ہے ''لطیفہ'' ، جس کا مطلب اردو میں ہے کوئی ہنسانے والی چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا۔ جب کہ عربی میں اس کے معنی ہیں نازک اور عمدہ چیز۔ عرب ملکوں میں لڑکیوں کے نام لطیفہ ہوتے ہیں۔ لیکن فائن آرٹس کے لئے بھی اردو میں 'فنونِ لطیفہ' کی ہی اصطلاح نظر آتی ہے۔ لطیفہ کا تعلق لفظ 'لطفْ' سے ہے، جو اردو میں کئی روپ دکھاتا ہے۔ اس کے معنی لذت بھی ہیں اور مہربانی بھی۔ امیر مینائ کا مشہور شعر ہے۔
لطف آنے لگا جفاؤں میں
وہ کہیں مہرباں نہ ہو جائے
اور حفیظ جالندھری کہتے ہیں ۔
ہم سے یہ بار لطف اٹھایا نہ جائے گا
احساں یہ کیجئے کہ یہ احساں نہ کیجئے
مجاز کی انقلابی نظمیں اپنے زمانے میں بہت مشہور تھیں۔ بمبئ میں ایک بار کسی مزدور نے فرمائش کی
"آپ اپنی وہ نظم سنائیے جس میں آپ نے کہا ہے
رہبری "چالو رہی" پیغمبری "چالو رہی۔ زرگری چالو رہی"_
کیا آپ جانتے ہیں کہ مجاز نے ہنس کر اپنی یہ پوری نظم جس کا عنوان ہے "خوابِ سحر" نہ صرف سنا دی بلکہ اس کا جو اصل شعر تھا:
رہبری جاری رہی پیغمبری جاری رہی
دین کے پردے میں جنگ زرگری جاری رہی
اس میں "جاری رہی" کی جگہ "چالو رہی" ہی پڑھا۔
مزدوروں کے ایک اور جلسے میں کچھ مزدوروں نے ان سے درخواست کی "وہ لال جھنڈا ہے ہمارے ہاتھ میں، والی نظم سنائیں۔" مجاز نے مزدوروں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اس نظم کے اس ٹیپ کے مصرعے
"آج جھنڈا ہے ہمارے ہاتھ میں"
میں ہر جگہ "آج" کے بجائے "لال" ہی پڑھا۔
ممتاز شاعروں کا منتخب کلام
हिंदी क्षेत्र की भाषाओं-बोलियों का व्यापक शब्दकोश
Buy Urdu & Hindi books online
A vibrant resource for Hindi literature
A feature-rich website dedicated to sufi-bhakti tradition
A trilingual dictionary of Urdu words
The world's largest language festival
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS