Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ

مرزا غالب

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ

    ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا

    تشریح

    معمورہ: بستی، آبادی، ویرانے کی ضد۔

    قحط: سوکھا، بھکمری۔

    الفت: محبت، دوستی، پیار، اخلاص، شفقت، میل جول، راہ و رسم۔

    یہ شعر اپنے دوسرے مصرع کی Quotability کے سبب مشہور ہے۔ جب کسی جگہ کسی پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا ہے تو یہ مصرع دہرا دیا جاتا ہے۔ اچھے شعر کی خوبی اگر ایک طرف یہ ہے کہ وہ دل میں اتر جائے تو دوسری طرف ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ دل کی آواز بن جائے۔ بقول غالبؔ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ زیرِ بحث شعر کا بنیادی موضوع مخلص لوگوں کی کمی ہے۔ شاعر نے اگر شہر میں اچھے اور مخلص لوگوں کی کمی پر غم کا راست اظہار کیا ہوتا تو شعر میں کوئی خاص لطف نہ ہوتا۔ لہذا اس نے شعر سے افراد کو خارج کرتے ہوئے ان غموں کا تذکرہ کیا جو اُسے مخلص دوستوں کی کمی کے نتیجہ میں لاحق ہیں۔ پھر شاعر نے ان غموں کو اپنا رزق قرار دے کر ایک ساتھ دو باتیں کہہ دیں۔ ایک یہ کہ غمِ الفت ہی وہ چیز تھی جس کے سہارے وہ جی رہا تھا اور دوسری یہ کہ وہ لوگ جو اس غم الفت کا وسیلہ تھے وہ اس کے لیے کتنے اہم تھے۔ خیال رہے کہ الفت، عشق سے مختلف چیز ہے۔ عشق کسی ایک سے ہوتا ہے جبکہ الفت بیک وقت بہت سے لوگوں سے ممکن ہے۔ جس طرح عشق میں ایک معشوق سے دوری غم کا سبب ہوتی ہے، اسی طرح ہر اچھے دوست سے دوری اپنی جگہ اک غم ہے۔ دوست کی محبت اور اس سے دوری کے موضوع پر یہ دو شعر بے محل نہ ہوں گے۔

    اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

    بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

    اور

    کیا خبر تھی کہ چلے گی کبھی ایسی بھی ہوا

    خشک پتوں کی طرح دوست بچھڑ جائیں گے

    غمِ الفت کو سمجھنے کے لیے اس اخلاص و یگانگت کو ذہن میں رکھنا ہوگا جس میں کسی ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی اور اس کا غم دوسرے کا غم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سبھی دوست ہر وقت تو ساتھ موجود نہیں ہوسکتے۔ اس لیے جو بھی نظروں سے دور ہوا اس کی یاد، اس کی فکر ستانے لگی۔ یہی غم الفت ہے۔ جو شاعر کی زندگی کا سہارا اور اس کا رزق تھا۔ لیکن اب ایسے لوگ مفقود ہو گئے ہیں۔ ان سے محرومی شاعر کے لیے ایسی ہی ہے جیسے وہ اپنے رزق سے محروم ہو گیا ہو۔ پہلے مصرع میں لفظ معمورہ لا کر شاعر نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگرچہ شہر لوگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن ان میں سچا اور مخلص دوست بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ یہ معاشرے میں خودغرضی کے عام ہونے پر بھی ایک چوٹ ہے۔ دوسرے مصرع سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنے شہر سے بڑی محبت ہے لیکن وہ موجودہ حالات سے اتنا دکھی ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی ایسی جگہ جانے کی سوچ رہا ہے جہاں اسے الفت اور غم الفت مل نہیں سکتا۔

    محمد اعظم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے