Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

مرزا غالب

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

    نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

    تشریح

    یہ غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ غرق کے معنی ڈوبنا۔ غرق دریا کے معنی ہیں دریا میں ڈوبنا رسوا ہونا کے معنی ہیں ذلیل ہونا۔

    غالب نے اس شعر میں ایک خوبصورت خیال پیش کیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ اٹھا۔ پھر میری قبر بن گئی اور اس طرح سے میں ذلیل ہو گیا۔ کتنا اچھا تھا کہ اگر میں دریا ڈوب کے مرجاتا نہ میری لاش ملتی، نہ میرا جنازہ اٹھتا اور نہ میری قبر ہی بن جاتی۔ یہ تو ہوئے قریب کے معنی اصلی مراد غالب کی یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں اتنا رسوا ہوا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی میری رسوائی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یعنی جب میں مر گیا۔ لوگوں نے میرا جنازہ اٹھایا اور پھر ایک دوسرے سے پوچھا کہ کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ پوچھنے پر جب معلوم ہوا تو بولے کہ ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کا جنازہ ہے؟ پھر جب میری قبر بن گئی تب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ معلوم ہوا کہ غالب کی ہے پھر بولے ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کی قبر ہے۔ اس طرح سے غالب تا قیامت رسوا ہوتے رہیں گے۔ اسی لئے وہ اس خواہش کا اطہار کرتے ہیں کہ کاش ہماری موت دریا میں ڈوبنے سے ہوتی اور ہماری لاش دریا سے برآمد ہی نہ ہوتی۔

    شفق سوپوری

    مأخذ:

    paiman-e-gazal-avval (Pg. 146)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے