ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
تشریح
یہ غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ غرق کے معنی ڈوبنا۔ غرق دریا کے معنی ہیں دریا میں ڈوبنا رسوا ہونا کے معنی ہیں ذلیل ہونا۔
غالب نے اس شعر میں ایک خوبصورت خیال پیش کیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ اٹھا۔ پھر میری قبر بن گئی اور اس طرح سے میں ذلیل ہو گیا۔ کتنا اچھا تھا کہ اگر میں دریا ڈوب کے مرجاتا نہ میری لاش ملتی، نہ میرا جنازہ اٹھتا اور نہ میری قبر ہی بن جاتی۔ یہ تو ہوئے قریب کے معنی اصلی مراد غالب کی یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں اتنا رسوا ہوا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی میری رسوائی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یعنی جب میں مر گیا۔ لوگوں نے میرا جنازہ اٹھایا اور پھر ایک دوسرے سے پوچھا کہ کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ پوچھنے پر جب معلوم ہوا تو بولے کہ ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کا جنازہ ہے؟ پھر جب میری قبر بن گئی تب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ معلوم ہوا کہ غالب کی ہے پھر بولے ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کی قبر ہے۔ اس طرح سے غالب تا قیامت رسوا ہوتے رہیں گے۔ اسی لئے وہ اس خواہش کا اطہار کرتے ہیں کہ کاش ہماری موت دریا میں ڈوبنے سے ہوتی اور ہماری لاش دریا سے برآمد ہی نہ ہوتی۔
شفق سوپوری
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 146)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.