aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"آنگن" خدیجہ مستور کا بہترین ناول ہے، جس میں انہوں نے تقسیم ہند و پاک کے دوران ہونے والے سماجی، سیاسی، اقتصادی بحران کو دکھانے کی کوشش کی ہے ، ناول میں حقیقی گھریلو زندگی کی اس طرح سے تصویر کھینچی گئی ہے کہ یہ کہانی اگرچہ کسی ایک آنگن کی کہانی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ مسلم معاشرے میں آئے بحران و تنزل کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اول اول یہ کہانی فلیش بیک سے شروع ہوتی ہے اور پھر اصل زندگی کی طرف مراجعت کرتے ہوئے مصنفہ نے ناول کی جاذبیت میں ہر چند اضافہ کر دیا ہے۔ اس کا پلاٹ ایک متوسط طبقے کے مسلم گھرانے کے آنگن کے مسائل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ گھر کی چہار دیواری میں محدود یہ آنگن بر صغیر کے ہر گھر کا آنگن بن گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ اتنا چست ہے کہ کہیں بھی غیر ضروری واقعات کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ مصنفہ نے ہر طبقے کے مسائل کو ان کی ہی زبان و بیان سے بیان کیاہے ، جس سے ناول کا حسن اور دو بالا ہو گیا ہے۔ یہ ناول خدیجہ مستور کا بہترین ناول ہے۔
اردو کی منفرد ناول نگار
"آنگن اپنے تاریخی موضوع، تہذیبی سچّائی، فنی پختگی اور فکری شعور کے باعث میرے خیال میں اردو کا سب سے اچھا اور شاہکار ناول ہے جس نے خدیجہ مستور کو دنیائے ادب میں جاوداں بنا دیا ہے۔" ڈاکٹر اسلم آزاد
خدیجہ مستور کا شمار اردو کی ان خاتون ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی ذہانت اور فنکارانہ شعور کے ذریعہ ناول نگاری کے فنّی معیار کو بلند کیا اور اس کے صنفی وقار میں اضافہ کیا۔ ان کا شاہکار ناول "آنگن" ہے جس میں انھوں نے زندگی کے تجربات کو محض رسمی طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تخلیقی قوت اور گہری بصیرت کے ذریعہ ان کو غیر معمولی وسعت اور بلندی عطا کی۔ ان کے ناول میں حالات کی تبدیلی، فرسودہ تصورات کی شکست اور نئے معاشرتی مسائل کے شفّاف نقشے سامنے آئے ہیں۔ خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر خود سامنے آ جاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموماً متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں وہ نہ علامتی ہیں نہ محض بیانیہ بلکہ ان دونوں کی خوبصورت آمیزش ان کہی کہانیوں کا طرّۂ امتیاز ہے۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔ جس وقت انھوں نے لکھنا شروع کیا، ان کے سامنے کوئی ماڈل نہیں تھا بس جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے فنکارانہ انداز میں بیان کر دیا۔
خدیجہ مستور 11 دسمبر 1827ء کو اتّر پردیش کے ضلع بریلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد تہوّر احمد خان پیشہ سے ڈاکٹر اور سرکاری ملازم تھے جن کا تبادلہ آئے دن ہوتا رہتا تھا جس کا اثر خدیجہ مستور کی تعلیم پر بھی پڑا لیکن ان کی والدہ پڑھی لکھی روشن خیال خاتون تھیں جن کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور ان کے مضامین خواتین کے رسالوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح گھر کا ماحول ادبی تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی خدیجہ مستور اور ان کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور کو بھی کم عمری سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی کہانیاں اس وقت کے بچّوں کے رسالوں میں شائع ہونے لگیں جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پھر جب وہ بڑی ہوئیں تو ان کی کہانیاں معیاری ادبی رسالوں ساقی، ادبی دنیا اور عامگیر میں شائع ہوئیں تو ادب میں ان کی شناخت مستحکم ہو گئی۔ 1944ء میں "ساقی" کے ایک ہی شمارہ میں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور دونوں بہنوں کی کہانیاں ایک ساتھ شائع ہوئیں۔ خدیجہ مستور کے والد کا انتقال اسی وقت ہو گیا تھا جب دونوں بہنیں کمسن تھیں اس لئے گھر میں مالی تنگی تھی۔ انھوں نے کچھ عرصہ بمبئی میں قیام کیا پھر جب پاکستان بنا تو وہ نہایت بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان چلی گئیں جہاں احمد ندیم قاسمی نے ان کی دستگیری کی۔ 1950ء میں انھوں نے قاسمی کے بھانجے ظہیر بابر اعوان سے شادی کر لی۔ ظہیر بابر پیشہ سے صحافی تھے۔ ظہیر بابر کے ساتھ انھوں نے کامیاب ازدواجی زندگی گزاری اور ساری عمر ادب کی خدمت کرتی رہیں۔ 26 جولائی 1982 کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا اور لاہور میں دفن کی گئیں۔
خدیجہ مستور کے افسانوں کے پانچ مجموعے "کھیل"،(1944) ،"بوچھار" (1946)، "چند روز اور" (1951) ، "تھکے ہارے" (1962) اور "ٹھنڈا میٹھا پانی" (1981) میں شائع ہوئے، لیکن ان کو خاص شہرت ان کے ناول "آنگن" سے ملی جسے اردو کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ناول خدیجہ مستور کی پہچان بن گیا۔ ڈیزی راکویل نے آنگن کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ناول پر پاکستان میں اک ٹی وی سیریل بھی بن چکا ہے۔ ناول کے انگریزی ترجمہ کو پنگوئن نے کلاسک کے درجہ میں رکھا ہے۔ 1962 ء میں خدیجہ مستور کو اس ناول کے لئے پر وقار "آدم جی ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ اسلوب احمد انصاری اسے اردو کے 15 بہترین ناولوں میں شمار کرتے ہیں جبکہ شمس الرحمان فاروقی کا کہنا ہے کہ اس ناول پر اب تک جتنی توجہ دی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کا مستحق ہے۔ تقسیم ہند کے موضوع پپر یہ انتہائی متوازن ناول اپنی مثال آپ ہے۔
خدیجہ مستور انتہائی مہارت کے ساتھ زندگی کی پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتی ہیں، معمولی واقعات کے ذریعہ غیر معمولی واقعات تک پہنچنے میں انھیں کمال حاصل ہے۔ وہ کسی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں تھیں۔ ان کے سارے کردار اپنی فکری پیچیدگیوں، نفسیاتی کشاکش اور جذبہ و احساس کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں ان میں مثالیت پسندی یا تصوریت نہیں۔ وہ بے تکلف اور روز مرّہ کی زبان استعمال کرتی ہیں۔ عصمت چغتائی یا واجدہ تبسم کے برعکس انھوں نے اپنی تحریروں پر کوئی ٹھپؔہ نہیں لگنے دیا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free