aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سر سید احمد خاں نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں لکھیں اور بعد والو ں کے لیے ایک چھاپ چھوڑ کر چلے گئے ۔ وہ اپنی تصنیفی خدمات میں کئی نوعیت سے قاری کے سامنے آتے ہیں ، کبھی محقق ، کبھی مفسر ، کبھی سیرت نگار ،کبھی فلسفی تو کبھی مصلح قوم وملت. الغر ض انہوں نے علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں میں اپنے قلم کے جادو بکھیرے ہیں۔ یہ کتاب ان کی اہم تر ین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ کیونکہ اس کتاب میں انہوں نے دلی کو بچا کر رکھا ۔ شہر کے کئی پرا نے محلے ویرا ن ہوئے کئی بڑی بڑی عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں ، کئی مساجد ومقابر و مزارات کا نام ونشان مٹ گیا لیکن سر سید نے اپنی انتھک کوشش سے ان تمام کو اس کتاب میں فر داً فرداً جمع کیا ہے ۔اس کتاب کے لیے انہوں نے عمارتوں کے کتبات کو مرکوز نظر رکھا ، ان عمار توں کی پیشانی تک پہنچ کر ان کتبوں کوپڑ ھ کر اس کتاب میں تاریخی حیثیت سے در ج کیا ۔قدیم دلی کی تو بہت ساری چیزیں مٹ گئیں ، کہیں کہیں کھنڈرات کی شکل میں آثا ر موجود ہیں ، نہروں اور تالابوں کا وجود ختم ہوا ، قبرستا ن ملیا میٹ اور مزا رات زمیں دو ز ہوگئے ، ایسے میں ماضی کے اوراق کو پلٹنا چاہتے ہیں ، سنہری دلی کی سیر کر نا چاہتے ہیں اور تاریخ کو جاننا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے ، بلکہ فن عمار ت سازی والوں کے لیے بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔
ہندوستان میں جس شخص نے تعلیم کو نئی شکل اور اردو نثر کو نئی صورت عطا کی اس کا نام سر سید احمد خاں ہے۔ جدید تعلیم کے محرک اور جدید اردو نثر کے بانی سر سید احمد خاں نے صرف طرز تحریر ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے طرز احساس کو بھی بدلا۔ انہوں نے سائنسی، معروضی اور منطقی طرز فکر کو فروغ دیا، عقلیت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ ان کی تحریک نے شاعروں اور نثر نگاروں کی ایک بڑی تعداد کو متأثر کیا۔ سرسید کا شمار ہندوستان کے عظیم ریفارمرس میں ہوتا ہے۔
سید احمد کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دلی کے سید گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد سید متقی محمد شہنشاہ اکبر ثانی کے مشیر تھے۔ دادا سید ہادی عالمگیر شاہی دربار میں اونچے منصب پر فائز تھے اور نانا جان خواجہ فریدالدین شہنشاہ اکبرثانی کے دربار میں وزیر تھے۔ پورا خانوادہ مغلیہ دربار سے وابستہ تھا۔ ان کی والدہ عزیزالنساء نہایت مہذب خاتون تھیں۔ سر سید کی ابتدائی زندگی پر ان کی تربیت کا بہت گہرا اثر ہے۔ اپنے نانا خواجہ فرید الدین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے خالو مولوی خلیل اللہ کی صحبت میں عدالتی کام کاج سیکھا۔
سرسید کو پہلی ملازمت آگرہ کی عدالت میں بطور نائب منشی ملی اور پھر اپنی محنت سے ترقی پاتے رہے۔ مین پوری اور فتح پور سیکری میں بھی خدمات انجام دیں۔ دلی میں صدر امین ہوئے۔ اس کے بعد بجنور میں اسی عہدے پر فائز رہے۔ مراد آباد میں صدر الصدور کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی۔ یہاں سے غازی پور اور پھر بنارس میں مامور رہے۔ ان علاقوں میں حسن خدمات کی وجہ سے بہت مقبول رہے۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے 1888 میں ’ سر‘ کا خطاب عطا کیا۔
ان علاقوں میں قیام اور قوم کی مجموعی صورت حال نے سرسید کو بے چین کر دیا۔ بغاوت اور شورش نے بھی ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔ قوم کی فلاح کے لیے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ اس اندھیرے میں انہیں نئی تعلیم کی روشنی ہی واحد سہارا نظر آئی جس کے ذریعہ وہ پوری قوم کو جمود سے نکال سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ اس قوم کے ذہن سے انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کو ختم کرنا ہوگا۔ تبھی ان پر بند کئے گئے سارے دروازے کھل سکتے ہیں ورنہ یہ پوری قوم خانساماں اور خدمت گار بن کر ہی رہ جائے گی۔ اسی جذبے اور مقصد کے تحت انہوں نے 1864 میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ 1870 میں’ تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا اور’ تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کامقصد عام مسلمانوں کی ذہن سازی تھا۔ 1875 میں علی گڑھ میں مدرسة العلوم پھر محمڈن اورینٹل کالج کے قیام کے پیچھے بھی یہی جذبہ اور مقصد کارفرما تھا۔ سرسید کو اپنے اس مقصد میں کامیابی ملی اور آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں سرسید کے خوابوں کا پرچم پوری دنیا میں لہرا رہا ہے۔
سرسید نے علی گڑھ تحریک کو جو شکل عطا کی تھی اس نے ہندوستانی قوم اور معاشرہ کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ اس تحریک نے اردو زبان و ادب کو نہ صرف نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا بلکہ اسالیب بیان اور موضوعات کو تبدیل کرنے میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ اردو نثر کو سادگی، سلاست سے آشنا کیا، ادب کو مقصدی حیثیت عطا کی، ادب کو زندگی اور اس کے مسائل سے جوڑا۔ ارودو نظم میں فطرت نگاری کو رایج کیا۔
سرسید نے اپنی نثرمیں سادگی اور معروضیت کو قائم کیا اور سرسید کے رفقا نے بھی اس طرز کو اختیار کیا۔ خواجہ الطاف حسین حالی ، علامہ شبلی، مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاءاللہ سبھی نے تحریک علی گڑھ سے روشنی حاصل کی اور اردو زبان و ادب کو فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔
سرسید نے بھی اپنی تصانیف میں اس کا التزام رکھا ان کی تصانیف میں آثار الصنادید، اسباب بغاوت ہند، خطبات احمدیہ، تفسیرالقرآن، تاریخ سرکشی بجنور بہت اہم ہیں۔ ’آثار الصنادید ‘دلی کی قدیم تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ایک قیمتی دستاویز ہے تو ’اسباب بغاوت ہند‘ میں غدر کے احوال درج ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ انہوں نے انگریزوں کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔’خطبات احمدیہ‘ میں اس عیسائی مصنف کا جواب ہے جس نے اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’ تفسیر القرآن‘ سرسید کی متنازعہ کتاب ہے جس میں انہوں نے قرآن کی عقلی تفسیر کی اور معجزات سے انکار کیا۔ سرسید کے سفرنامے اور مقالات بھی کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔
ایک عظیم تعلیمی تحریک کے بانی سرسید احمد خان کا انتقال 27 مارچ 1898 میں ہوا۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جامع مسجد کے احاطے میں مدفون ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free