aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یگانہ چنگیزی کی شاعری غالب کی طرح مروجہ اقدار سے بغاقت کرتی ہوئی شاعری ہے"آیات وجدانی"یگانہ چنگیزی کا دوسرا اور اہم ترین مجموعہ تھا جو 1927 میں منظر عام پر آیا تھا۔ یگانہ کی شاعرانہ اہمیت کا دارو مداربڑی حڈ تک اسی مجموعے پر ہے، اس مجموعہ کویگانہ نے خود ہی چھاپا تھا، اس مجموعہ کے شروع میں دیباچہ ہے،جس کے آخر میں میرزا مراد بیگ شیرازی کا نام درج ہے جو در اصل یگانہ ہی ہیں ، اس کے بعد غزلیات ہیں جن کے ساتھ میرزا مراد بیگ شیرازی کے محاضرات ہیں، جن میں کہیں کسی شعر کی شرح کی ہے، کہیں کسی شعر کے محاسن بیان کئے گئے ہیں اور جگہ جگہ یگانہ کی مبالغہ آمیزتعریف کی گئی ہے، آخر میں متفرقات کے تحت مختلف اشعار ہیں جو محاضرات کے بغیر ہیں۔
مرزا یاس یگانہ چنگیزی اپنے معاصرین میں اپنی شاعری کے نئے رنگوں اور دکھ درد کی بے شمار صورتوں میں لپٹی ہوئی زندگی کے سبب سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ یگانہ کا نام مرزا واجد حسین تھا پہلے یاس تخلص کرتے تھے بعد میں یگانہ تخلص اختیار کیا۔ ان کی پیدائش ۱۷ اکتوبر ۱۸۸۴ء کو محلہ مغلپورہ عظیم آباد میں ہوئی۔ ۱۹۰۳ میں کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ تنگئ حالات کے سبب تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے۔ ۱۹۰۴ میں واجد علی شاہ کے نواسے شہزادہ میرزا محمد مقمیم بہادر کے انگریزی کے اتالیق مقرر ہوئے۔ مگر یہاں کی آب وہوا یگانہ کو راس نہیں آئی اور وہ عظیم آباد لوٹ آئے۔ عظیم آباد میں بھی ان کی بیماری کا سلسلہ جاری رہا اس لئے تبدیلی آب وہوا کے لئے ۱۹۰۵ میں انہوں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ یہاں کی آب وہوا اور اس شہر کی رنگا رنگ دلچسپیوں نے یگانہ کو کچھ ایسا متأثر کیا کہ پھریہیں کے ہورہے۔ یہیں شادی کی اور یہیں اپنی آخری سانسیں لیں۔ تلاش معاش کیلئے لاہور اور حیدرآباد گئے بھی گئے لیکن لوٹ کر لکھنؤ ہی آئے۔
ابتدائی کچھ سالوں تک تو یگانہ کے تعلقات لکھنو کے شعرا وادبا کے ساتھ خوشگوار رہے انہیں مشاعروں میں بلایا جاتا اور یگانہ اپنی تہ دار شاعری اور خوش الحانی کی بنا پر خوب داد وصول کرتے لیکن دھیرے دھیرے یگانہ کی مقبولیت لکھنوی شعرا کو کھلنے لگی وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ کوئی غیر لکھنوی لکھنو کے ادبی معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے۔ اس لئے یگانہ کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں ان کے لئے معاشی مشکلیں پیدا کی جانے لگیں۔ اس دشمنی کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب یگا نہ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کچھ ایسی رباعیاں کہہ دی تھیں جن کی وجہ سے سخت مذہبی خیالات رکھنے والوں کو تکلیف ہوئی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کریگانہ کے مخالفین نے ان کے خلاف ایسی فضا تیار کی کہ مذہبی جوش وجنون رکھنے والے یگانہ کو لکھنو کی گلیوں میں کھیچ لائے۔ چہرے پر سیاہی پوت کران کا جلوس نکالا اور طرح طرح کی غیر انسانی حرکتیں کیں۔ لکھنو کے اس ادبی معاشرے میں یگانہ کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اس سوچ کے خلاف لڑنا تھا جس کے تحت کوئی فرد یاگروہ زبان وادب اور علم کو اپنی جاگیر سمجھنے لگتا ہے۔
یگانہ کی شاعری کی داستان لکھنؤ میں کی جانے والی ایک ایسی شاعری کی داستان ہے جو وہاں کی گھسی پٹی اور روایتی شاعری کو رد کرکے فکر وخیال اور زبان کے نئے ذا ئقوں کو قائم کرنے کی طرف مائل تھی۔ لکھنو میں یگانہ کے معاصرین ایک خاص انداز اور ایک خاص روایت کی شاعری کی نقل اڑانے میں لگے ہوئے تھے ان کے یہاں نہ کوئی نیا خیال تھا اور نہ ہی زبان کا کوئی نیا ذائقہ وہ داغ و مصحفی کی بنائی ہوئی لکیروں پر چل رہے تھے۔ لکھنو میں یگانہ کی آمد نے وہاں کے ادبی معاشرے میں ایک ہلچل سی پیدا کردی۔ یہ ہلچل صرف شاعری کی سطح پر ہی نہیں تھی بلکہ یگانہ نے اس وقت میں رائج بہت سے ادبی تصورات ومزعومات پر بھی ضرب لگائی اور ساتھ ہی لکھنو کے اہل زبان ہونے کے روایتی تصور کو بھی رد کیا۔ غالب کی شاعری پر یگا نہ کے سخت ترین اعتراضات بھی اس وقت کے ادبی ماحول میں حد سے بڑھی ہوئی غالب پرستی کا نتیجہ تھے۔
یگانہ کی شاعری آپ پرھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ وہ زبان اور خیالات کی سطح پر شاعری کو کن نئے تجربوں سے گزار رہے تھے۔ یگانہ نے بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی ،سماجی اور فرد کے اپنے داخلی مسائل کوجس انداز مین چھوا اور ایک بڑے سیاق میں جس طور پرغزل کا حصہ بنایا اس طرح ان کے عہد کے کسی اور شاعرکے یہاں نظر نہیں آتا۔ یہی تجربات آگے چل کر جدید اردو غزل کا پیش خیمہ بنے۔
یگانہ کی کتابیں : شعری مجموعے : نشتر یاس، آیات وجدانی، ترانہ، گنجینہ ۔ دیگر : چراغ سخن، غالب شکن۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free