aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"البیان "علم بیان کے حوالے سے عابد صاحب کی لکھی ہوئی ایک تحقیقی کتاب ہے۔علم البیان، علوم بلاغت کی ایک اہم شاخ ہے۔ جس میں ایک معنی کو مختلف تراکیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، جس میں میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز مرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے،چنانچہ سید عابد علی عابد صاحب نے اس کتاب میں علم بیان کی تعریف، علم بیان کے مبادیات، مجاز، تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل اور کنایہ جیسی اہم بحثوں کو اپنی کتاب میں مفصل انداز میں بیان کیا ہے، چیزوں کو سمجھانے کے لیے مثال کے طور پر اشعار کا سہارا لیا گیاہے، تاکہ قاری کو آسانی سے سمجھ میں آسکے کہ شعر میں استعارہ کا استعمال کس طرح ہے یا پھر تشبیہ کا ۔
اردو میں جن لوگوں نے ایک وسیع تر ادبی ، سماجی اور تہذیبی آگہی کےساتھ تنقید لکھی ہے ان میں ایک نام عابد علی عابد کا بھی ہے۔ عابد علی عابد اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی زبان وادبیات کے واقف کاروں میں بھی تھے اسی وجہ سے ان کا تنقیدی ڈسکورس ان کے عہد میں لکھی جانے والی روایتی تنقید سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔
عابد علی عابد نے شاعری بھی کی ۔ ان کے کئی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تنقید ان کی تخلیقی کارگزاریوں پر حاوی رہی۔ عابد علی عابد 17 ستمبر 1906 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد فوج میں ملازم تھے ۔ لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور گجراب میں وکالت کرنے لگے لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انہیں لاہور کھینچ لایا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 20 جنوری 1971 کو لاہور میں انتقال ہوا۔ عابد علی عابد کی تصانیف کے نام یہ ہیں : اصول انتقاد ، ادب کے اسلوب ، شمع ، ید بیضا ، سہاگ ، تلمیحات اقبال ، طلسمات ، میں کبھ غزل نہ کہتا ، بریشم عود ، انتقاد ۔ وغیرہ ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets