aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
امیر خسرو کی ہندی شاعری کو کئی معنی کر فارسی پر فوقیت حاصل ہے، اردو ہندی، ہندوستانی یا کھڑ بولی کی پہلی واضح شکل امیر خسرو کی ہندی شاعری میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کے ہندی کلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندی کا کلام اتنا ہی ہے جتنا فارسی کا کلام ہے اور فارسی کا کلام ایک تحقیق کے مطابق تین لاکھ ابیات پرمشتمل ہے گویا کہ تین لاکھ کے قریب ان کے ہندی کے ابیات بھی ہیں، امیر خسرونے ہندی اور ایرانی موسیقی کی ازسرنوتدوین کی اور اسے اپنی اختراعات اور ایجادات سے مالا مال کیا۔ زیر نظر کتاب میں گوپی چند نارنگ نے نسخہ برلن کے حصول کے بعد جو حقائق پیش کیے، اس سے خسرو کے ہندوی کلام کا دائرہ وسیع ہوا ہے، محمود شیرانی کو امید ہی نہیں تھی کہ خسرو کاہندوی سرمایہ کبھی ہاتھ بھی آسکتا ہے ، تاہم گوپی چندنا رنگ نے اشپرنگر کے نشان زد نسخہ برلن سے حاصل کرکے شائع کردیا ہے ۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے متعلق شمس اللہ قادری نے اشپرنگر کے حوالہ سے اپنی کتاب ’’اردوئے قدیم ‘‘میں لکھاتھا اور اس نسخہ کو اشپرنگر اپنے 1856میں اپنے وطن جرمنی لے گیے تھے، یہی وہ نسخہ ہے ، جو گوپی چند نارنگ کو1982میں سفر یورپ کے دوران برلن میں ہاتھ لگا۔ گوپی چند نارنگ نے نسخہ برلن کے حصول کے بعد جو حقائق پیش کیے ، اس سے خسرو کے ہندوی کلام کا دائرہ وسیع ہوا ہے ۔ بعید نہیں کہ مرورِزمانہ کی گردشوں سے دائرہ خسرو اور بھی وسیع ہو۔
امیر خسرو ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھے جو صدیوں بعد کبھی جنم لیتی ہیں۔ خسرو نے ترکی النسل ہونے کے باوجود کثیر نسلی اور کثیر لسانی ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل دینے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت بجائے خود متنوع تھی۔ وہ بیک وقت شاعر، مدبّر، سپہ گر، صوفی، امیر اور درویش تھے۔ انہوں نے ایک طرف بادشاہوں کے قصیدے لکھے تو دوسری طرف اپنی شیریں بیانی سے عوام کا دل بھی موہ لیا۔ امیر خسرو ان لوگوں میں سے تھے جن کو قدرت صرف محبت کے لئے پیدا کرتی ہے۔ ان کو ہر شخص اور ہر چیز سے محبت تھی اور سب سے زیادہ محبت ہندوستان سے تھی جس کی تعریف کرتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ وہ ہندوستان کو دنیا کی جنّت کہا کرتے تھے۔ ہندوستان کی ہواؤں کا نغمہ ان کو مست اور اس کی مٹی کی مہک ان کو بےخود کر دیتی تھی۔ جب اور جہاں موقع ملا انہوں نے ہندوستان اور اس کے باشندوں کی جس طرح تعریفیں کی ہیں اس کی کہیں دوسری جگہ مثال نہیں ملتی۔ پشت در پشت صدیوں سے ہندوستان میں رہنے والا بھی جب ہندوستان کی بابت ان کے بیان پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے حقیقی حسن سے وہ پہلی بار دوچار ہو رہا ہے۔
امیر خسرو کا اصل نام ابوالحسن یمین الدین تھا۔ وہ 1253ء میں ایٹہ ضلع کے قصبہ پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر سیف الدین، چنگیزی فتنہ کے دوران، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد پر واقع مقام کش(موجودہ شہر سبز) سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور ایک ہندوستانی امیر عماد الملک کی بیٹی سے شادی کر لی۔ خسرو ان کی تیسری اولاد تھے۔ جب خسرو نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد نے ان کو خوشنویسی کی مشق کے لئے اپنے وقت کے مشہور خطّاط سعد اللہ کے حوالہ کر دیا لیکن خسرو کو پڑھنے سے زیادہ شعر گوئی کا شوق تھا وہ وصلیوں پر اپنے شعر لکھا کرتے تھے۔ شروع میں خسرو "سلطانی" تخلص کرتے تھے بعد میں خسرو تخلص اختیار کیا۔ خسرو جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو غیاث الدین بلبن ملک کا بادشاہ تھا اور اس کا بھتیجا کشلو خاں عرف ملک چھجّو امراء میں شامل تھا۔ وہ اپنی جود و سخا کے لئے مشہور اور اپنے وقت کا حاتم کہلاتا تھا۔ اس نے خسرو کی شاعری سے متاثر ہو کر اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔ اتفاق سے ایک دن بلبن کا بیٹا بغرا خان، جو اس وقت سمانہ کا حاکم تھا محفل میں موجود تھا۔ اس نے خسر کا کلام سنا تو اتنا خوش ہوا کہ ایک کشتی بھر رقم ان کو انعام میں دے دی۔ یہ بات کشلو خان کو ناگوار گزری اور وہ خسرو سے ناراض رہنے لگا۔ آخر خسرو بغرا خان کے پاس ہی چلے گئے جس نے ان کی بڑی قدرومنزلت کی بعد میں جب بغرا خان کو بنگال کا حاکم بنایا گیا تو خسرو بھی اس کے ساتھ گئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اپنی ماں اور دہلی کی یاد نے انہیں ستایا تو وہ دہلی واپس آ گئے۔ دہلی آ کرو ہ بلبن کے بڑے بیٹے ملک محمد خان کے مصاحب بن گئے۔ ملک خان کو جب ملتان کا حاکم بنایا گیا تو خسرو بھی اس کے ساتھ گئے۔ کچھ دنوں بعد تیمور کا حملہ ہوا۔ ملک خان لڑتے ہوئے مارا گیا اور تاتاری خسرو کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ دو برس بعد خسرو کو تاتاریوں کے چنگل سے رہائی ملی۔ اس عرصہ میں انہوں نے ملک خان اور جنگ میں شہید ہونے والوں کے درد ناک مرثئے کہے۔ جب خسرو نے بلبن کے دربار میں یہ مرثئے پڑھے تو وہ اتنا رویا کہ اسے بخار ہو گیا اور اسی حالت میں کچھ دن بعد اس کی موت ہو گئی۔ بلبن کی موت کے بعد خسرو امرائے شاہی میں سے ایک خان جہاں کے دربار سے وابستہ ہوئے اور جب اسے اودھ کا حاکم بنایا گیا تو اس ساتھ ہوگئے۔ خسرو دو برس اودھ میں رہنے کے بعد دہلی واپس آ گئے۔ خسرو نے دہلی کے گیارہ بادشاہوں کی حکومت دیکھی اور بادشاہوں یا ان کے امیروں سے وابستہ رہے۔ سبھی نے ان کو نوازا یہاں تک کہ ایک موقع پر انہیں ہاتھی کے وزن کے برابر سکّوں میں تولا گیا۔ اور یہ رقم ان کو انعام میں دی گئی۔ خسرو نہایت پُر گو شاعر تھے۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ان کی ابیات کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ اور چار لاکھ سے کم ہے۔ اوحدی نے لکھا ہے کہ خسرو کا جتنا کلام فارسی میں ہے اتنا ہی برج بھاشا میں بھی ہے لیکن ان کے اس دعوے کی تصدیق اس لئے محال ہے کہ خسرو کا مدوّن کلام برج بھاشا میں نہیں ملتا۔ ان کا جو بھی ہندی کلام ہے وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ہے۔ خسرو سے پہلے ہندی شاعری کا کوئی نمونہ نہیں ملتا۔ خسرو نے فارسی کے ساتھ ہندی کو ملا کر شاعری کے ایسے دلکش نمونے پیش کئے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں۔ خود درباروں میں درباری شاعر تھے لیکن دربار سے باہر وہ پوری طرح عوام کے شاعر تھے۔ زندہ دلی اور خوش مزاجی ان میں کوٹ کُوٹ کر بھری تھی، تصوف نے ان کو ایسی نگاہ دی تھی کہ انہیں خدا کی بنائی ہوئی ہر مخلوق میں حسن ہی حسن نظر آتا تھا۔ ہندی اور فارسی کی آمیزش سے کہی گئی ان کی غزلیں عجیب رنگ پیش کرتی ہیں شاید ہی کوئی ہو جس نے ان کی غزل "زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں*کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگاے چھتیاں " نہ سنی ہو اور اس کے پر سوز مگر وجد آمیز لطف سے محروم رہ گیا ہو۔
شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خسرو ایک بڑے موسیقار بھی تھے۔ ستار اور طبلہ کی ایجاد کا سہرا ان کے سر ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستانی اور فارسی راگوں کے امتزاج سے نئے راگ ایجاد کئے۔ راگ درپن کے مطابق ان نئے راگوں میں سازگری، باخرز، عشاق، سرپردہ، فرودست، موافق وغیرہ شامل ہیں۔ خسرو نے قوّالی کو فن کا درجہ دیا شبلی نعمانی کے مطابق خسرو پہلے اور آخری موسیقار ہیں جن کو "نایک" کا خطاب دیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خسرو عہد اکبری کے مشہور موسیقار میں تان سین سے بھی بڑے موسیقار تھے۔ خسرو کو حضرت نظام الدین اولیاء سے خاص نسبت تھی۔ حالانکہ دونوں کی عمروں میں بس دو تین سال کا فرق تھا۔ خسرو نے 1286 میں خواجہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اور خواجہ صاحب نے خاص ٹوپی جو اس سلسلہ کی علامت تھی خسرو کو عطا کی تھی اور انہیں اپنے خاص مریدوں میں داخل کر لیا تھا۔ بیعت کے بعد خسرو نے اپنا سارا مال و اسباب لٹا دیا تھا۔ اپنے مرشد سے ان کی عقیدت عشق کے درجہ کو پہنچی ہوئی تھی خواجہ صاحب کو بھی ان سے خاص لگاؤ تھا۔ کہتے تھے کہ جب قیامت میں سوال ہو گا کہ نظام الدین کیا لایا تو خسرو کو پیش کر دوں گا۔ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ایک قبر میں دو لاشیں دفن کرنا جائز ہوتا تو اپنی قبر میں خسرو کو دفن کرتا۔ جس وقت خواجہ صاحب کا وصال ہوا خسرو بنگال میں تھے۔ خبر ملتے ہی دہلی بھاگےاور جو کچھ زر و مال تھا سب لٹا دیا اور سیاہ پوش ہو کر خواجہ کی مزار پر مجاور ہو بیٹھے چھ ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا اور مرشد کے قدموں میں دفن کئے گئے، برابر اس لئے نہیں تا کہ آگے چل کر دونوں کی جداگانہ قبروں کی شناخت میں مشکل نہ پیدا ہو۔
امیر خسرو ان شاذ ہستیوں میں سے ایک تھے جن پر سرسوتی اور لکشمی، ایک دوسرے کی دشمن ہونے کے با وجود، بیک وقت مہربان تھیں۔ خسرو نے بہت مصروف لیکن پاکیزہ زندگی گزاری اور اپنی ساری توانائیاں شعر و موسیقی کے لئے وقف کر دیں۔ انہوں نے نسلاً غیر ملکی ہونے اور فاتح حکمراں طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک مخلوط ہندوستانی تہذیب کی تعمیر میں خشت اوّل کا کام کیا۔ ان کا یہ کارنامہ کم نہیں کہ ہندی اور اردو، دو مختلف زبانوں کے فروغ کے بعد بھی، دونوں خیموں کے لوگ خسرو کو اپنا کہنے پر فخر کرتے ہیں۔