aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"بالِ جبریل" علامہ اقبال کے اردو کلام کا بہترین نمونہ ہے۔اس مجموعے میں زیادہ تر اقبال کی غزلیات شامل ہیں۔ یہ غزلیات معنوی اعتبار سے غزل کے جدید ترین رنگ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ "بال جبریل"کی غزلوں میں اقبال کےاعتماد میں گہرائی اور فکر میں استحکام نظر آتا ہے۔ لفظوں کےانتخاب اورترکیب سازی میں بھی نئے شعوِر فن کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کے جذبوں کی گرمی شعروں میں ضم ہونے کے لیے بے تاب ہے۔آہنگ میں موسیقیت کا جادو شامل ہوجاتا ہےاوراس میں بلندی بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی نظموں میں جو فلسفہ و فکر شیر و شکر ہے اسے غزلوں سےبھی ا یک راہ مل گئی ہے۔ یہ غزلیں اپنی معنی خیزی میں نہ صرف بانگِ درا کے مقابلے میں الگ معیار کا تعیّن کرتی ہیں بلکہ عام غزلوں سے بھی ایک علیحدہ مزاج کی حامل ہیں،ہر غزل میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔غزلوں کے علاوہ ساقی نامہ اور مسجد قرطبہ جیسی عالی شان نظمیں بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں جو کہ اقبال کے شعری سرمائے کے بہترین نمونے ہیں۔ زیر نظر بال جبریل کی شرح ہے جس کو یوسف سلیم چشتی نے نہایت شرح و بسط سے انجام دیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free