aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نئی غزل کی دلکش پہچان
بشیر بدر نئی اردو غزل کے منفرد، تازہ بیان شاعر ہیں جنھوں نے غزل میں نئی لفظیات داخل کرتے ہوئے نئے حسّی پیکر تراشے اور نئے زمانے کے فرد کی نفسیات اور اس کے جذباتی تقاضوں کی ترجمانی کی۔ انھوں نے روائتی مضامین اور ترقی پسندی و جدیدیت کے نظریاتی حصار سے آزاد رہتے ہوئے عام آدمی کے روز مرّہ کے تجربات و مشاہدات کو خوبصورت شعری اظہار دے کر اردو داں طبقہ کے ساتھ ساتھ غیر اردو داں طبقہ سے بھی خراجِ تحسین حاصل کیا۔ غالب کے بعد غیر اردو داں طبقہ میں سب سے زیادہ معروف اور مقبول شاعر بشیر بدر ہیں۔
بشیر بدر کی غزل کا مجموعی آہنگ یکسر غیر روائتی ہے۔ وہ محبوب کا حسن ہو یا دوسرے مظاہر کائنات، بشیر بدر نے ان سب کا احساس و ادراک اک ایسے زاویہ سے کیا جو سابقہ اور ہم عصر شاعروں سے الگ ہے۔ بشیر بدر کی غزلوں میں اک نازک ڈرامائی کیفیت ملتی ہے۔ ان کے اشعار محض اک واردات نہیں بلکہ اک کہانی کا انکشاف کرتے ہیں جس پر استعارے یا علامت کی باریک نقاب پڑی ہوتی ہے۔ واقعاتی فضا رکھنے والے متحرّک پیکر بشیر بدر کی غزل کا خاصّہ ہیں۔ بشیر بدر کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے پیکر میں ایسے بیشمار الفاظ داخل کئے جن کو غزل نے ان سے پہلے شرف قبولیت نہیں بخشا تھا۔ اس معاملہ میں بشیر بدر کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے بول چال کی ٹھیٹھ اردو کو اپنایا۔ ایسی آزاد زبان میں نئے الفاظ کے کھپ جانے کی گنجائش روائتی معرب و مفرس زبان کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ بشیر بدر کی غزل میں لفظ و احساس کی سطح پر تازگی، شگفتگی، شعریت اور حسن ہے جو ان کی غزل کو دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔
بشیر بدر (اصل نام سید محمد بشیر) 15 فروری 1935ء کو کانپور میں پیدا ہوے۔ ان کا آبائی وطن فیض آباد ضلع کا موضع بکیا ہے۔ ان کے والد سید محمد نظیر پولیس کے محکمہ میں ملازم تھے۔ بشیر بدر نے تیسری جماعت تک کانپور کے حلیم مسلم کالج میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد والد کا تبادلہ اٹاوہ ہو گیا جہاں محمد صدیق اسلامیہ کالج سے انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ہائی اسکول کے بعد والد کی وفات کے سبب ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ان کو 85 روہے ماہوار پر پولیس کی ملازمت کرنی پڑی۔ والد کی موت کے بعد گھر کی ذمہ داریاں ان ہی کے سر پر تھیں۔ ان کی نسبت والد کی زندگی میں ہی اپنی چچازاد بہن قمر جہاں سے ہو گئی تھی۔ پولیس کی ملازمت کے دوران ہی ان کی شادی ہو گئی اور تین بچے بھی ہو گئے۔
بشیر بدر کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے ان کی غزل نیاز فحپوری کے رسالہ "نگار" میں چھپی جس پراٹاوہ کے ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ 20 سال کی عمر کو پہنچے پہنچتے ان کی غزلیں ہندوسان اور پاکسان کے موقر رسالوں میں شائع ہونے لگی تھیں اور ادبی حلقوں میں ان کی شناخت بن گئی تھی۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہو جانے کے کئی سال بعد انھوں نے از سر نو اپنی علمی صلاحیت بڑھانے کا فیصلہ کیا اور جامعہ علی گڑھ کے ادیب ماہر اور ادیب کامل امتحانات پاس کرنے کے بعد علی گڑہ یونیورسٹی سے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پی ایچ ڈی میں ان کے نگراں پروفیسر آل احمد سرور تھے اور مقالہ کا موضوع "آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ" تھا۔ بی اے کے بعد انھوں نے 1967ء میں پولیس کی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ وہ یونیرسٹی کے وظیفے اور مشاعروں کی آمدنی سے گھر چلاتے رہے۔ 1974 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کے بعد وہ کچھ دن عارضی طور پر علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے پھر ان کا تقرر میرٹھ یونیورسٹی میں ہو گیا۔ اس عرصہ میں مشاعروں میں ان کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ مئی 1984 میں جب وہ اک مشاعرہ کے لئے پاکستان گئے ہوئے تھے ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ محلہ والوں نے، جن میں اکثر غیر مسلم تھے، ان کی تدفین کی۔ 1987 کے میرٹھ فسادات میں ان کا گھر لوٹ کر جلا دیا گیا۔ 1986 میں انھوں نے بھوپال کی ڈاکٹر راحت سلطان سے شادی کر لی اور کچھ دنوں بعد وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی یاد داشت کمزور ہونے لگی اور بالآخر وہ سب کچھ بھول گئے۔ ان کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کبھی ان کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔
سن 1984ء میں شائع ہونے والے اپنے تیسرے مجموعے" آمد" میں انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے تو سنجیدہ قارئین کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس مجموعے میں 2035ء کے قارئین کے نام ایک خط تھا جس میں کہا گیا تھا، ’’آج 1985 کی غزل میں مجھ سے زیادہ مقبول و محبوب کوئی شاعر نہیں۔ آج غزل کے کروڑوں عاشقوں کا خیال ہے کہ ناچیز کی غزل اردو غزل کے کئی سو سالہ سفر میں نیا موڑ ہے۔ میرا اسلوب آج کی غزل کا اسلوب بن چکا ہے۔ تنقید کی بد دیانتی اور نا فہمی کے اکثر حربے اپنے آپ میں محدود ہو گئے ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ آپ کے عہد (2035ء)میں جو غزل رواں دواں ہے اس کا آغاز مجھ ناچیز کے چراغوں سے ہوا۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ بشیر بدر نے اپنی غزلوں میں نئے دور کے نئے موضوعات، مسائل، افکار و تناظرات سے پنی گہری حسّی، وجدانی، جذباتی اور اور فکری وابستگی کو اک انوکھا اور دلکش پیرایۂ بیان دے کر اردو غزل میں اک نئے باب کا اضافہ کیا۔ بشیر بدر نے عام جذبات کو عوامی زبان میں پُر فریب سادگی سے بیان کر دیے ہیں جس میں کوئی تصنع یا بناوٹ نظر نہیں آتی۔ ان کے اشعار میں گاؤں اور قصبات کی سوندھی سوندھی مٹْٰی کی مہک بھی ہے اور شہری زندگی کے تلخ حقائق کی سنگینی بھی۔ بشیر بدر کی شاعری نے تغزّل کو نیا مفہوم عطا کیا۔ یہ تغزل روحانی اور جسمانی محبت کی ارضیت اور ماورائیت کا امتزاج ہے۔ بقول گوپی چندر نارنگ بشیر بدر نے پوئٹری میں نئی بستیاں آباد کی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ یہی ان کا پاپولر امیج ہے۔ لیکن امیج پورے بشیر بدر کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ان کی شاعری وہ خوشبو ہے جو ہمارا رشتہ آریائی مزاج سے، ہماری دھرتی سے، گنگ و جمن کی وادی سے، اور ہندی، برج، اودھی بلکہ تمام مقامی بولیوں سے جوڑتی ہے۔
ڈاکٹر بشیر بدر کو حکومت ہند نے پدم شری کے خظاب سے نوازا اور ان کو ساہتیہ اکیڈمی کے علاوہ مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں نے بھی ایوارڈ دئے۔ بشیر بدر کے کلام کے چھہ مجموعے اکائی، امیج، آمد، آس، آسمان اور آہٹ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا کلیات بھی دستیاب ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free