aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"بے آواز گلی کوچوں میں " احمد فراز کا ساتواں مجموعہ کلام ہے، اس مجموعے میں فراز کی قید تنہائی کی چند عبارتیں موجود ہیں، اور پاکستان کی سیاسی بد حالی کے حوالےسےانھوں نے "ایک بد نما صبح" کے نام سےکچھ نظمیں پیش کی ہیں ۔ یہ مجموعہ کلام اپنے دور کی بھر پور عکاسی کرتا ہے،پاکستان میں مارشل لاءکےزمانے میں پاکستان کی صورت ِ حال کی طرف اشارہ کیا گیا، اسی مجموعہ میں فراز کی معرکۃ الآراء نظم"محاصرہ" بھی ہے، پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی شہادت کےحوالےسےفرازنے کافی نظمیں کہیں ہیں،جوان کےاسی شعری مجموعے میں موجودہیں اس مجموعہ کلام کوفراز نے ڈاکٹر عطیہ کے نام سے منسوب کیا ہے، فراز کا یہ مجموعہ 1982 میں منظر عام پر آیا۔
احمد فراز ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہوگیا۔ احمد فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن ابتدا ہی سے فراز کو اردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ اردو زبان اور ادب میں ان کی یہ دلچسپی بڑھنے لگی۔ ان کے والد انہیں ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن احمد فراز کا فطری میلان ادب وشاعری کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ احمد فراز نے اپنا کرئیر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا مگر بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ میں جب حکومت پاکستان نے اکیڈمی آف لیٹرس کے نام سے ملک کا اعلی ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔
فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔
شعری مجموعے
جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets