aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو شاعری میں داغ دہلوی كا نام محتاج تعارف نہیں كہ سارےجہاں میں دھوم ،ان كی شاعری كی ہے۔وہ اپنے فكر و فن ،شعر وسخن اور زبان و ادب كی تاریخی خدمات كے سبب اردو شاعری كے افق پر ہمیشہ روشن رہیں گے۔اردو زبان پر ان كا غیر معمولی احسان ہے كہ ان كے كلام میں زبان كا چٹخارہ ،سادگی سلاست، روانی ،رنگینی ،شوخی ہے تو تیزی و طراری بھی ہے۔ان كے یہاں عشق كی بے انتہا شدت ہے۔والہانہ جذبات و احساسات ،لطافت زبان،نزاكت الفاظ و بیان،محاورں كا بر محل استعمال ،ترنم اور سوز گداز داغ كی شاعری كا مخصوص رنگ ہے۔ایك تو طبعیت موزوں پائی تھی دوسرے زبان دانی روزمرہ محاورے پر قدرت حاصل تھی ۔چنانچہ اس وصف كی بنا پر ان كی شہرت دور دور تك پھیلتی چلی گئی۔ان كی ادبی خدمات كے لیے انھیں بلبل ہندوستان ،جہاں استاد،ناظم یارجنگ،دبیرالملك اور فصیح الملك كے خطابات سے نوازا گیا۔زیرنظر كتاب داغ دہلوی كی حیات و شعری خدمات كا احاطہ كرتی ان كی شعری ،فنی ،علمی،ادبی اور لسانی خدمات كے لیے بہترین خراج تحسین ہے۔ دہلی اردواكادمی كی جانب سے 9/10 فروری 1985 ء كو دو روزہ كل ہند سمینار كا انعقاد عمل میں آیاتھا ۔جس میں داغ كی حیات و خدمات كے مختلف پہلوؤں پر دلچسپ ،معلوماتی،كلام كا فنی و موضوعاتی جائزے پر مبنی اہل قلم نے كئی اہم مقالات پیش كیے۔ان ہی مقالات كا مجموعہ كتاب ہذا "داغ دہلوی حیات اور كارنامے" ہے۔كتاب ہذا میں پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے داغ كے نظریہ فن سے بحث كرتے ہوئےاپنے ناقدانہ خیالات كا اظہار كیا ،ڈاكٹر نثار احمد فاروقی نے داغ كی حیات معاشقہ پر نہایت ہی پرلطف مقالہ پیش كیاتو پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے "داغ كےاثرات اقبال پر"كے عنوان سے داغ اور اقبال كے شاعرانہ تعلق پر مفصل روشنی ڈالی،پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے مكاتب داغ اور ڈاكٹر سیدہ جعفر نے داغ حیدرآبادمیں ، عنوان سے داغ كی شخصیت و كلام كے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔اس طرح دیگر اہل قلم نے بھی اپنے اپنے مختلف انداز بیاں ،سے داغ كی علمی ،ادبی اور شاعرانہ خدمات كا اعتراف كیا ہے۔غرض یہ كتاب داغ كے فن اور شخصیت كے مختلف موضوعات كا احاطہ كرتی اہمیت كی حامل ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets