Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : مرزا غالب

ایڈیٹر : محمد انوار الحق

اشاعت : 002

ناشر : مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال

مقام اشاعت : بھوپال, انڈیا

سن اشاعت : 1982

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : دیوان

صفحات : 488

معاون : مظہر امام

دیوان غالب جدید
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

پیش نظر کتاب مرزا غالب دہلوی کے دیوان کا جدید نسخہ ہے۔یہ غالب کا وہ ابتدائی کلام ہے جیسے غالب نے خود اپنے دیوان سے الگ کر دیا تھا جسے حالیہ طبع سے آراستہ کر کے ارباب کی نظر کے سامنے پیش کیا گیا ہے عام دیوانوں کی ترتیب کے بر خلاف اس دیوان میں قصائد سے ابتداء کی گئی ہے اور اردو قصیدہ سے بھی پہلے ایک قطعہ فارسی کو فاتحہ الکتاب بتایا گیا ہے ۔دیوان میں مطبوعہ اشعار کی بنسبت 15 شعر زیادہ ہیں۔اور مشترک اشعار میں بھی کہیں کہیں کوئی لفظی ترمیم ہے۔ یہی دیوان نسخہ حمیدیہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس دیوان کے ساتھ عبد الرحمان بجنوری کا مقدمہ بھی شامل کر دیا ہے۔ اس دیوان کو مفتی انوار الحق نے مرتب کیا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

غالب ؔ کی اولین خصوصیت طرفگئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات ، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو ۔میرؔ کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کردینے سے گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے ۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام عمن اور اثر کے ساتھ ادا کرسکے ۔ اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے اور شدت احساس کے وہ سپردگی اور بے چارگی نہیں ہے یہ شدت اور کرب کو محض بیان کردینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پاجاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بے حسی یا بے پروائی پیدا کرلیتے ہیں ۔ اگر میرؔ نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ۔ مزا جو ں میں یاس آگئی ہے ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی تو غالب ؔ اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالبؔ کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے ۔ باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہئے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق تفکر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔(الخ) اور اسی لیے اس شب و روز کے تماشے کو محض بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ۔ دین و دنیا، جنت و دوزخ ، دیر و حرم سب کو وہ داماندگئ شوق کی پناہیں سمجھتے ہیں۔(الخ) جذبات اور احساسات کے ساتھ ایسے فلسفیانہ بے ہمہ دبا ہمہ تعلقات رکھنے کے باعث ہی غالبؔ اپنی شدت احساس پر قابو پاسکے اور اسی واسطے طرفگئی ادا کے فن میں کامیاب ہوسکے اور میرؔ کی یک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگ رنگ کھلا سکے۔ ’’لوح سے تمت تک سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یاخوابیدہ موجود نہیں۔‘‘ لیکن غالبؔ کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔ اول اول تو بیدلؔ کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کیامیابی نہ ہوئی سخیوں کہ اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی مجبوراً انہیں اپنے جوش تخیئل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پر لانا پڑا۔ صائبؔ کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری میرؔ کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفیؔ و نظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدلؔ کا سا اغلاق تھا نہ میرؔ کی سی سادگی ۔ اسی لیے اسی متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا ۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالبؔ نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیئل کی باریک تر مضامین کی طرف رہ نمائی کی گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومنؔ کے ) کس نے نہیں برتا تھا ۔ اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں ایک طرفہ لذت نظر آئی ۔ ولیؔ ، میرؔ و سوداؔ سے لے کر اب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالبؔ نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہ نمائی میں اس پر لطف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام و دہن کے ناز تر پہلو نکل آئے ۔ غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر ہندوستان کی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلاً جوش کے موقع پر فارسی کا استعمال اور درد و غم کے موقع پر میرؔ کی سی سادگی کا ) بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب ؔ کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے