aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دہلی کا ایک یادگا ر مشاعرہ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی ایما پر مولوی کریم الدین کے اہتمام سے جو یا دگار مشاعرہ ہوا تھا اسے مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ خوبصورت طرز نگارش میں قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اس عہد کے شعری مذاق اور قلعہ معلی کی معاشرتی خصوصیات کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے کہ گویا ہم واقعات اور حالات کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بادشاہ وقت کا انداز تکلم ،قلعہ معلی کی سیر، شعرا ءد ہلی کو دعوت شرکت دینا ، شعرا کی آمد کا منظر ، نمونہ کلام، شعرا کا انداز بیان وغیرہ کونہایت ہی دلفریب انداز میں بیان کیا ہے۔ جو لائق دید اور ساتھ ساتھ ہماری معلومات میں اضافے کا ضامن بھی ہے۔
ہمارے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔
وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں 1884ء میں مرزا کی ولادت ہوئی۔ تعلیم بھی یہیں ہوئی۔ کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد گئے۔ وہاں مختلف عہدوں پر فائز ہوئے 1947ء میں وفات پائی۔
ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا ور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کردیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامین فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔
دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف ولذت حاصل ہوتی ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ اصلاً مزاح نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں ہے وہاں شدت نہیں بس ہلکی ہلکی چوٹیں ہیں جن سے کہیں بھی زہرناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free