Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : شوکت سبزواری

ناشر : قومی کتب خانہ، بریلی

مقام اشاعت : بریلی, انڈیا

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : شاعری تنقید

صفحات : 299

معاون : جامعہ ہمدردہلی

فلسفہ کلام غالب
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

شوکت سبزواری کا اصل نام شوکت علی ہے۔ ان کے والد سید اسدعلی تھے۔ جن سے آٹھ اولادیں تھیں۔ شوکت سبزواری سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے اسلاف مغلیہ دور میں مشہد سے ہندوستان آئے اور ضلع بلندشہر کے ایک مقام مرزا پورمیں بس گئے۔ شوکت کی ولادت بقول مالک رام 1905ء  یا 1906ء میں ہوئی۔

شوکت علی کی تعلیم ابتدا میں ڈھنگ سے نہ ہوسکی۔ جب وہ صرف آٹھ برس کے تھے تو ان کے بڑے بھائی کی وفات ہوگئی جن کی نظرکرم ان پر رہا کرتی تھی۔ اب اس عمر میں وہ قرآن مجید پڑھنے کی طرف مائل ہوئے اور اردو پڑھنے کی طرف بھی رغبت بڑھی۔ وہ ابتدا میں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں قرآن مجید پڑھا دیتا اور اردو سکھا دیتا۔ انہوں نے ایک استانی سے پڑھنے کا سلسلہ قائم کیا۔ اس طرح قرأت قرآن ختم ہوئی اور اردو میں بھی کچھ صلاحیت پیدا ہوئی۔ ایک مسجد کے مولوی صاحب نے ان کے والد صاحب کی درخواست پر انہیں مدرسہ امدادالعلوم، میرٹھ بھیج دیا۔ وہاں کئی محترم استاد تھے جن سے شوکت نے بھر پور استفادہ کیا۔ مولانا اخترشاہ نے ان کی فارسی اور عربی کے ذوق کو صیقل کیا۔ اس طرح 1924ء میں مولوی فاضل اور 1927ء میں منشی فاضل ہوگئے۔ پھر انگریزی کی طرف مائل ہوئے۔ حالانکہ ان کے والد انگریزی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن 1926ء میں دسویں درجے کی سند انگریزی کے ساتھ حاصل کر لی۔ انہوں نے پرائیوٹ طور پر انٹر سے ایم اے تک کے امتحانات پاس کئے۔ ایم اے میں ان کا مضمون فارسی تھا۔ پھر کلکتہ یونیورسٹی سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ قانون کی بھی سند لی۔ اس کے بعد ایم اے (اردو) سال اوّل آگرہ یونیورسٹی سے امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ پہلے وہ اسلامیہ انٹرکالج بریلی کے شعبہ فارسی میں ملازم ہوئے تبھی ایم اے اردو کا دوسرا سال بھی مقرر ہوا۔ امتحان دیا اور سند حاصل کی۔ انٹرکالج کے بعد وہ میرٹھ کالج کے شعبہ فارسی میں آگئے۔

ان کا ابتدائی مضمون ’’فلسفہ کلام غالب‘‘ ہے جو 1946ء میں شائع ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد عندلیب شادانی کی ایما پر وہ ڈھاکہ چلے گئے اور وہاں کی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ یہیں سے انہوں نے اردو لسانیات کی بھی ڈگری لی۔ مالک رام لکھتے ہیں کہ:۔

’’1952ء میں اردو لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جس کی تیاری وہ قیام میرٹھ کے زمانے سے کر رہے تھے۔ لسانیات کی طرف ان کا میلان بھی ایک حسن اتفاق کا کرشمہ تھا۔‘‘

شوکت سبزواری پہلے پہل افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ پھر وہ ’’نگار‘‘ اور’’معارف‘‘ میں لکھنے لگے۔ لیکن اب تک ان کی کتاب ’’فلسفہ کلام غالب‘‘ شائع نہیں ہوئی تھی۔ 1946ء میں ان کی اشاعت کے بعد ان کی شہرت میں چار چاند لگنے شروع ہوگئے اور لسانیات سے ان کی وابستگی، شغف اور ژرف بینی کا اظہار اس وقت ہوا جب ’’اردو زبان کا ارتقا‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب 1956ء میں ڈھاکہ سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ یوں تو یہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے لیکن اس میں جس طرح لسانیاتی مباحث سامنے آئے ہیں وہ بیحد اہم ہیں۔ پھر ان کی لسانیات سے متعلق کتابیں ’’داستان زبان اردو‘‘، ’’لسانی مسائل‘‘، ’اردو لسانیات‘‘ وغیرہ شائع ہوتی رہیں۔ جن کی بنا پر انہیں ماہر لسانیات سمجھا جانے لگا۔ اردو لسانیات پر انہیں ’’داؤدادبی انعام‘‘ بھی حاصل ہوا۔ انہوں نے ’’غالب: فکروفن‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جو ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مختلف مضامین ’’معیارادب‘‘ اور ’’نئی پرانی قدروں‘‘ میں شاید جمع ہیں۔ شوکت سبزواری کے ایسے مضامین پر نظر نہ بھی ہو تو ان کی لسانیات کی کتابوں کا جو وقار ہے وہ ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہا ہے اور ان سے کئی نئے مباحث سامنے آئے ہیں۔

شوکت سبزواری کا انتقال 19؍مارچ1973ء میں کراچی میں ہوا۔ تدفین قبرستان الطاف نگر میں ہوئی۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے