aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
فراق گورکھپوری، زندگی ، فکر اور فن دونوں اعتبارسے تمام ہی چیزوں میں انفرادیت رکھنے والے شاعر ہیں، ان کی شاعری میں مشرق و مغرب دونوں مزاج کا حسین امتزاج ملتا ہے، انہوں نے کلاسیکی شعراکے اثرات قبول کیے اور اس سے انحراف کر کے ایک نئی راہ بھی نکالی۔فراق کی شاعری کا بنیادی رنگ اور موضوع حسن و عشق ہے مگر جہا ں ان کی شاعری میں خاص طور پر غزل گوئی میں حسن پرستی اور انسان دوستی کے اعلیٰ نمونے اور قدریں ملتی ہیں تو وہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پر چھائیں بھی باہیں دراز کیے ہوئے استقبال کرتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ جدید غزل گو شعرا میں فراق کا نام کافی اہمیت سے لیا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں عشق،معاملات عشق، جسم و جنس کا تصور، اشتراکی رنگ، خوبصورت ہندوستانی دیومالائی عناصر سے مزین تشبیہات و استعارات ، ڈرامائیت، تجسیم کاری، معنیٰ آفرینی، رعایت لفظی اور کائنات کے حسین مناظر ان تمام چیزوں کو اس خوبصورتی سے غزل کا حصہ بنایا ہے کہ خود بخود ان کی شاعری ایک نئی جہت سے آشنا ہوگئی ہے۔ زیر نظر کتاب"فراق گورکھپوری" انجمن ترقی اردو(ہند) کی جانب سے ترتیب کردہ کتاب ہے، اس کتاب میں اردو کی مایہ ناز شخصیات کے فراق کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کو شامل کیا گیا ہے جس سے فراق کی شخصیت اور ان کے فن کے نمایاں پہلو نکل کر آتے ہیں۔