aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
گورکی کی آپ بیتی عظیم قلمکار میکسم گورکی کی بہترین تحریر ہے۔ یہ ایک آوارہ گرد مشاہدہ بین قلمکار کی ذاتی ڈائری تھی جس میں ہر سانحے کو ٹھوکر مار دی گئی تھی۔ اس میں ایک یتیم بچے کا احساس محرومی بھی ہے اور بچپن کی معصوم خواہش بھی۔ اور یہ سب کچھ بندغم یا امیدی کی طرف نہیں جاتا بلکہ یہاں زیست نئی روشن امید سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہ ادبی کاوش آوارہ گردوں کی اس فطرت کی آئینہ دار ہے۔ گورکی نے میرا بچپن (حصہ اول) کے آخری حصے میں اپنے ادبی نکتۂ نظر پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالی ہے کہ: "جب روس کی اس وحشیانہ زندگی (عورتوں خصوصاً بیویوں کی مار پیٹ) کی ہیبتوں کا خیال آتا ہے تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔ کہ اس کا ذکر کیوں کیا جائے؟ مگر مجھے جواب ملتا ہے یہ ذکر جائز ہے۔کیونکہ وہ حقیقت پر مبنی ہے اور یہ غمناک حقیقت آج بھی باقی ہے۔ یہ وہ بِس پیڑ ہے جس کی جڑ تک ہمیں پہنچنا ہے۔ اسے لوگوں کی روحوں اور ذہنوں سے نکالنا اور اپنی مکروہ و تاریک زندگی سے مٹانا ہے۔ ہماری اس عجیب و غریب زندگی میں صرف فطرت کے حیوانی پہلوؤں کو ہی فروغ نہیں ملا۔ بلکہ اس بربریت کے باوجود، تخلیقی اور تعمیری شے پروان چڑھ رہی ہے۔گورکی کی اس دلگداز آپ بیتی میں کسی ناول سے بھی زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اور مفلوک الحال روسی عوام کی جفاکش و دقت طلب زندگی کے انوکھے پل سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ اس نے دل کے یہ چھالے لطف اٹھانے کے لیے نہیں دکھائے بلکہ اسے ایک واضع مقصد کی خاطر لکھا۔ تاکہ غربت کی پیپ سامنے آئے اور اس ناسور کا علاج ہو۔ گورکی آپ بیتی کا اردو ترجمہ اختر حسین رائپوری نے تین حصوں میں کیا ہے۔ پہلا حصے میں گورکی کا بچپن ہے۔ دوسرے حصے میں روٹی کے لئے گورکی کی جد و جہد پیش دکھلائی گئی ہے جبکہ تیسرے حصہ میں گورکی کے جوانی کے دن پیش کئے گئے ہیں۔ زیر نظر حصہ سوم ہے۔