aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شمیم انجم نے حضور پُر نور کے ساتھ بےحدعقیدت و خلوص اپنا تصور منور کیا ہے۔ان کی لفظیات نکھری ہوئی ہیں۔بہت ہی سہل اور قابل فہم زبان میں شعر کہے ہیں۔ایک سچے اُمتی ہونے کا کردار نبھاتے ہویے اپنے خیالات میں پاکی اور سچائی سموئی ہے۔جس طرح کے خیالات نظم کیے ہیں ان میں تو پہلے پوری احتیاط کو مدِّ نظر رکھا ہے اور پھر حضور کے دربار میں ہمیشہ سر کے بل چلنے کی تمنا کی ہے۔شمیم کے نعتیہ دوہے اُن کی مذہبی تربیت اورشخصی عقیدت کا آئینہ دار ہیں۔ اُنھوں نے جی جان سے اس مضمون کو پیش کیا اورنعت کی فنی روایات کی پاس داری کے ساتھ ساتھ اس میں تازگی و رعنائی کا بھی اہتمام کیا۔حرف حرف خوشبو‘‘موصوف کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے۔
محمد شمیم انصاری، قلمی نام شمیمؔ انجم وارثی، 20 مئی 1966ء کو کمرہٹی، کولکاتا میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن ڈمراؤں، بکسر (بہار) ہے۔ والد کا نام عبدالعزیز انصاری (مرحوم) اور والدہ کا نام عائشہ بیگم ہے۔ انہوں نے اسکول فائنل تک تعلیم حاصل کی اور 1987ء میں شاعری کا آغاز کیا۔
شمیمؔ انجم وارثی اردو شاعری کے ایک ہمہ جہت شاعر ہیں جنہوں نے نعت، غزل، دوہا، ماہیا، رباعی، گیت اور بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے اب تک بیس (20) شعری مجموعے اور تحقیقی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں روپ روپ تیری تجلی، عرق عرق چہرے، حرف حرف خوشبو، لفظ لفظ نغمگی، ساحل ساحل عشق اور شاخ شاخ تتلی شامل ہیں۔
ان کی شاعری پر کئی علمی مضامین اور گوشے شائع ہو چکے ہیں، جب کہ انہیں متعدد قومی و ادبی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں علامہ شغف سینائی سیمابی ایوارڈ، احمد جمال پاشا ایوارڈ، بیکل اتساہی ایوارڈ، راحت اندوری ایوارڈ اور دیگر اعزازات شامل ہیں۔
شمیمؔ انجم وارثی نے شاعری میں "غزل نما" اور "غزالہ نما" جیسے منفرد تجربات بھی کیے ہیں، جو اردو شاعری میں ان کا خاصا اضافہ ہیں۔
ان کی شاعری زبان و بیان کی تازگی، جذبے کی شدت اور فکری تنوع کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔