aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی بیسویں صدی كی ایك مختلف الجہات شخصیت ہیں۔ان كاشمار ان شعرا میں بھی سر فہرست ہے ،جو غزل دشمن تحریک کے مقابل صف آرا ہوئے۔انھوں نے زیادہ تر غزلیں کہی ہیں۔انھوں نے ایک نئے انداز سے غزل کہی جس میں فرسودہ مضامین کو نئی آواز اور توانائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس طرح ایک بار پھر عوا م و خواص میں غزل مقبول ہوئی۔حسرت نے گویا غزل کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ان کے کلام میں دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔پیش نظر"حسرت موہانی :شخصیت اور فن" ہے۔ یہ کتاب محترمہ ڈاکٹر ریحانہ صدیقی کا تحقیقی مقالہ ہے۔جس کو انھوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔کتاب میں حسرت كی شخصیت و فن کے متنوع رنگ نمایاں ہیں۔وہ ایك اعلیٰ پایہ كے صحافی ،ایك زبردست نقاد، نظم نگار،دانشوار اور سیاست دان تھے۔زیرنظركتا ب میں حسرت كی سوانح حیات اور شاعری كا مكمل جائزہ لیا ہے۔حسرت نے تقریبا تمام اصناف شعری میں طبع آزمائی کی ہے۔کتاب میں حسرت کی غزل گوئی ، نظم نگاری، ان کے قید و بند کی صعبوتیں ،نثر نگاری اور دیگر ادبی خدمات کاتجزیہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ضمیمہ کے تحت حسرت کی تصنیفات ، تاریخی مضمون،ایک تاریخی خطبہ صدارت،روداد مقدمہ ء احمد آباد وغیرہ کا جائزہ الگ سے پیش کیا ہے۔