Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : خواجہ میر درد

ناشر : مطبع انصاری، دہلی

مقام اشاعت : دلی, انڈیا

زبان : Arabic, Persian

موضوعات : تصوف

ذیلی زمرہ جات : فلسفہ تصوف, نقشبندیہ, سماع اور دیگر اصطلاحات

صفحات : 655

معاون : سمن مشرا

علم الکتاب
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

علم الکتاب خواجہ میر درد کے عرفانی تصورات کا وہ استعارہ ہے جو ان کی ذہنی پختگی اور بالغ نظری کی بین دلیل ہے۔ انہوں نے یہ کتاب اپنے بھائی میر اثر کی خواہش پر تحریر کی اور اس کو والد محترم خواجہ ناصر عندلیب کی بھی تایید و تقریظ حاصل ہے۔ درد اس کتاب کو "کلید قفل توحید و معرفت" قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق اس کتاب کے مختلف نام ہیں جیسے شرح للواردات یا ذکر للعالمین مگر ان کی صراحت ہے کہ اس کا اصل نام علم الکتاب ہی ہے جسے انہوں نے ۱۱۷۹ ہجری میں مرقوم کیا جس کے اعداد سے اس کا سنہ تالیف بھی مستخرج ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ۱۱۱ رباعیات کو "واردات" کے عنوان سے تشریح و توضیح کی ہے مگر اس کے ضمن میں وہ ہر وارد کے آخر میں ایک دوسری رباعی کا بھی اضافہ کرتے ہیں جو یا تو اس وارد کی موید ہوتی ہے یا اس کے ذیلی عنوان سے اس کا گہرا ربط ہوتا ہے اور اس ۱۱۱ کے عدد پر ختم کرنے کی حکمت کو بھی بیان کیا ہے، چونکہ ۱۱۰ عدد لفظ علی کے ہیں مگر چونکہ"ان اللہ وتر و یحب الوتر" اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے اس لیے انہوں نے ایک عدد کا اس میں اضافہ کیا ہے(علم الکتاب، ص۹۶)۔ ان کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ ہر وارد کی پیشانی پر لفظ "ھو الناصر" اور "بسم اللہ" کا اضافہ کرتے ہیں اور پھر عربی زبان میں ایک پر مغز خطبہ نقل کرتے ہیں جو اسی وارد سے متعلق ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بسم اللہ پر ھو الناصر کو مقدم کرنے کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں تاکہ تقدیم ھو الناصر پر کسی معترض کو انگشت نمائی کی گنجایش باقی نہ رہ جائے وہ لکھتے ہیں کہ ھو الناصر بھی اللہ کے ایک ہزار ناموں میں سے ایک ہے اسی طرح ناصر جناب رسول اللہ ﷺ کے ۹۹ ناموں میں سے ایک ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس نام سے موسوم ہیں نیز فاطمہ زہرا کو بھی ناصرہ کہا جاتا ہے اور یہی نام درد کے والد محترم کا بھی ہے لیکن اس سب کے باوجود اس نام کی حقیقی نسبت خدا تعالی کی ہی جانب ہے اس لیے ھو الناصر کو بسم اللہ پر مقدم کرنے سے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔(علم الکتاب،ص ۹۵) علم الکتاب کا موضوع متصوفانہ عناصر کا بیان ہے جسے میر درد علم الہی محمدی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے متصوفانہ تخیلات کو نقد و انتقاد کے ذریعے ان رسومات و مزخرفات مزعومہ کو جو بعد زمانہ کی وجہ سے عرفانیات کا حصہ قرار پا چکی تھیں، آیینہ کی طرح صاف کیا ہے اور غیر ثنویت کے شبہات کو چھان بین کر کے ان نقایص کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتاب میں تصوف کی موشگافیاں اور صاف گوییاں ایک ساتھ مجتمع نظر آتی ہیں ۔ تصوف سے متعلق ان کی رائے کچھ اس طرح ہے کہ تصوف کچھ مخصوص اصطلاحات و محاورات کے جاننے کا نام ہے ٹھیک اسی طرح جسے ہم دیگر علوم کسبیہ کو حاصل کرتے ہیں۔ میر درد یہیں پر بس نہیں کرتے بلکہ اس سے دو قدم اور آگے جاتے ہیں جہاں پر علماء عامہ کے پر جلنے لگتے ہیں اور وہاں جاکر انہوں نے تصوف کے دو شہرہ آفاق نظریات وحدت الوجود و وحدت الشہود کو بھی علم الہی محمدی کے سامنے ہیچ شمار کیا ہے اور پہلے کو "تقریر بے ادبانہ و بیان مستانہ" کہا ہے اور دوسرے کو "کثرت شوق و غلبہ ذوق، بلا ادراک حقیقت" کہا ہے اور ان دونوں کو تصوف کی شاہراہ میں نقص گردانا ہے۔ وحدت الوجود سے متعلق ان کی وہی رایے ہے جو مجدد الف چانی کی ہے البتہ انہوں نے وحدت الشہود کو اگرچہ بالکل مسترد نہیں کیا ہے بلکہ گاہ بگاہ اس کی تایید بھی کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے صوفیہ کی عام جماعت سے ہٹ کر اپنے ایک الگ موقف کا انتخاب و اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ درد کے عہد تک اگر ہم بنظر غایر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صوفیہ موٹے طور پر دو الگ الگ عالمی و شہرہ آفاق نظریات کے دام میں پھنسے ہوے تھے اور انہیں دو نظریات کے مدار پر تصوف کا کارواں رواں دواں تھا۔ ان میں سب سے پہلا اور مضبوط گروہ وحد الوجود یعنی ہمہ اوست کے متبعین کا تھا جس کے سرخیل شیخ محی الدین ابن العربی اور ان کے متبعین و شارحین تھے جس کی خیرہ کن روشنی سے متصوفین متاخرین کا کاروبار تصوف ایک منظم و منضبط تفکیرات کے ذریعہ تمام عالم اسلام و دنیاء تصوف کو مسحور کر رکھا تھا اور تقریبا پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ طلسم ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور آج بھی صوفیہ کا بہت بڑا دھڑا اسی نظریات پر عمل پیرا ہے۔ اول اول صوفیہ نے اس کو بہت ہی منظم طور پر آگے بڑھایا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا صوفیہ نے اپنے خیالات کو وحدت وجود کا جامہ پہنا کر پیش کرنا شروع کر دیا اور حد تو تب ہو گیی جب عہد اکبری تک آتے آتے متعدد غیر اسلامی تحریکات اور دیگر مذاہب نے خود کو اس رنگ میں رنگ کر اپنے عقاید کو بھی یہ جامہ پہنا دیا اور اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ کر اکبری عہد کے متعدد گروہوں نے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے جس سے نہ صرف اسلام کو نقصان پہونچ رہا تھا بلکہ صوفیہ کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ صوفیاے جہلا فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنے بنایے ہوئے ڈایلاگس کو شطحیات کا نام دیکر تصوف کے خوان پر پروس رہے تھے۔ چنانچہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے فسوں کو توڑا جایے اور اس کی خامیوں ، خرابیوں اور کمزور کڑیوں کو توڑا جاے اور اسے پھر سے خالص کیا جایے۔ اس لیے اس کی کمزوریوں پر وار کیا گیا کہ وحدت الوجود کو ماننے والے واجب و ممکن کو ایک دوسرے کا عین شمار کرتے ہیں اور عبد و معبود کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور عینیت و غیریت کو آپس میں ضم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ شطحیات گویی میں ملوث ہوکر بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں باوجودیکہ کلمہ شہادت میں عبدیت و معبودیت کو رسالت پر مقدم رکھا گیا ہے۔ شیخ احمد سرہندی نے جب اپنی تجدیدی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ان کو ابتدائی ایام میں ہی اس کے نقایص کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس کے مقابل ایک دوسرا نظریہ پیش کیا جو وحدت شہود کے نام سے جانا گیا اور ہمہ اوست کے بجاے ہمہ ازوست سے متعارف ہوا اور پھر ایک طویل بحث کا آغاز ہوا۔ اگرچہ مجدد الف ثانی نے وحدت وجود کو یکسر مسترد نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس نظریہ کو راہ عرفان و تصوف کی ابتدایی منزل تصور کرتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ وحدت شہود یقینی طور پر وحدت وجود کے مرتبے سے اعلی و ارفع ہےجو وحدت وجود کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ خواجہ میر درد کے نزدیک یہ دونوں کے دونوں فلسفہ و نظریات مقصود اسلام نہیں بلکہ کشف و جذب کی حالت زار کا نتیجہ ہیں، حقیقت حال سے ان کا کویی واسطہ نہیں بلکہ جذبہ شوق و مستی اور کشف و مراقبہ کی حالت بے حالی کا نتیجہ ہیں جو فلسفہ و کلام کی مدد سے اسلامی تفکیرات کا حصہ بن گئی ہیں۔ اسی لیے میر درد نے خود کو اور طریقہ محمدیہ کے متبعین کو ان بے نتیجہ مباحث سے دور رکھا ہے اور ان دونوں ہی نظریات کو اسلامی تعلیمات کے منافی تصور کیا ہے اور کسی ایک نظریہ سے پابندی کے ساتھ منسلک ہونے کو عیب تصور کیا ہے۔ اس کے بالمقابل ان کا ماننا ہے کہ عقیدہ وہی درست جو قرآن و سنت کے موافق و مطابق ہو۔ چونکہ میر درد نقشبندیہ سلسلے سے کہیں نہ کہیں منسلک تھے اس لیے انہوں نے وحدت الشہود کی بعض اغراض و مقاصد کے تحت تایید بھی کی ہے مگر یہ توثیق کورانہ تقلید نہیں بلکہ ان کے موقف اور قرآن و سنت کی موید ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اہل سلوک کو چاہیے کہ عوام کے درمیان ہمہ اوست کے بجاے ہمہ ازوست کے مطالب کو بیان کریں تاکہ اس سے ہر خاص و عام ، صغیر و کبیر استفادہ کر سکے، کیونکہ وحدت وجود کے مطالب سے اخص الخواص کے علاوہ کویی بھی صراط مستقیم پر قایم نہیں رہ سکتا اور میر درد نے وجودی و شہودی متبعین کے لیے چار درجے متعین کیے ہیں۔ اول وہ ہے جو توحید وجودی و شہودی کو تو موٹے طور پر جانتا ہو اور دل میں ما سواے ذات واحد کسی کو اپنا حامی و ناصر نہ سمجھتا ہو تو اسے اولیا کی فہرست میں شامل کیا جایے گا چونکہ وہ اس علم کے رموز و اسرار کو نہیں جانتا اس لیے اسے محققین کے زمرے میں نہیں رکھا جایگا۔ دوسرا وہ شخص ہے جو ان علوم کی آشنایی تو رکھتا ہو مگر دل میں ما سوای ذات واحد کسی اور کو بھی شریک کرتا ہو تو وہ محققین و مقلدین کے زمرے میں تو شمار کیا جایگا مگر ولی نہیں ہے۔ تیسرا وہ ہے جو شریعت سے سروکار ہی نہ رکھتا ہو اور بے سر و پا باتیں کرتا ہو تو وہ ملحد ہے اسے مقلد بھی نہیں کہا جاییگا۔ چوتھا وہ ہے جو اس علم کی مصطلحات کو بھی بخوبی جانتا ہو اور اپنے اندر محبت خدا تعالی بھی رکھتا ہو تو اس کو ولی کامل کہا جاییگا۔( علم الکتاب، ص۱۸۵) درد نے شطحیات عرفا کے حوالے سے بھی اپنا اسٹیٹمنٹ دیا ہے اور صوفیا کی انانیت اور جہلا کی نفسانیت کے درمیان فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ درد کے نزدیک شطحیات کا اہم فیکٹر سکر و مستی، وجد و تواجد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس وقت صوفی تصوف کے ابتدایی اور طفولیت کے مرحلے سے باہر آتا ہے اور سلوک کے درمیانی مراحل میں پہونچتا ہے جو کہ جوانی ،عروج و غلبہ سکر کا وقت ہوتا ہے اس وقت سالک کے دل پر جو واردات القاء ہوتے ہیں ان کو غلبہ شوق کی وجہ سے بیان کرنے لگ جاتا ہے جیسے کہ مثل مشہور ہے کہ" من عرف اللہ طال لسانہ" لیکن جب سالک پختہ مشق ہو جاتا ہے تب اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جو بھی اس پر القاء ہوتا ہے اسے درون سینہ دفن رکھتا ہے، اسے زبان پر نہیں لاتا اور اس کا بیان بھی معتدل ہو جاتا ہے: "چون بکہولت می رسند یعنی شروع معاملات نزول می شود کلام ایشان بحد اعتدال می آید و از شطحیات باز می ماند و چون بہ شیخوخت می رسند و دایرہ عروج و نزول تمام می گردد سکوت اختیار می کند و بی ضرورت سخن نمی گویند کہ من عرف اللہ کل لسانہ"(علم الکتاب، ص۱۲۷) طریقہ محمدیہ کے موسس و بنیان گزار ناصر عندلیب ہیں، لیکن میر درد نے طریقہ محمدیہ کے متعلق بہت سے طریقے، خصایص، اوراد و وظایف نیز اس سلسلے کے بہت سے ایسے اصول و قواید اور تعلیمات جو دیگر سلاسل سے جداگانہ ہیں، بیان کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کتاب میں جابجا اس سلسلے کی برتری و فوقیت اور انفرادیت کے ساتھ اس کو دیگر تمام طرق و سلاسل پر فوقیت دی ہے اور طریقہ محمدیہ کو دیگر تمام سلاسل تصوف کا متمم و خاتم بتایا ہے۔ اس سلسلے کے کچھ خصایص یہاں پر بطور مثال بیان کیے جا رہے ہیں جیسے محمدیوں کے نزدیک کفر طریقت یعنی شراکت نفسانیت اور مداخلت انانیت بھی شرک خفی شمار کیا جاتا ہے اور اس ملت متحدہ میں تفرقہ ڈالنا بھی شکر خفی ہے۔ وہ شطحیات صوفیہ کو بھی شرک خفی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ درد صوفیہ کے متعدد طرق کو بھی شرک خفی شمار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حدیث میں جو ہفتاد و دو ملت کا ذکر آیا ہے اس سے مراد صوفیہ کے مختلف گروہ ہیں(علم الکتاب، ص۸۸)۔ ان کے نزدیک یہ لازمی ہے کہ سارے سلاسل کو حق پر جانیں اگرچہ بعض پر بعض کو فضیلت حاصل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محمدی جس وقت فناییت کے درجے پر پہونچ جایے تو اسے شطحیات سے دور رہنا چاہیے اور خدا کے رازہاے سربستہ کو افشاء کرنے سے خود کو بچانا چاہیے اسلیے کہ جو شخص خدا کے رازوں کی حقاظت کر سکتا ہو وہی محمدیوں کی امارت کا صحیح معنی میں مستحق ہے۔ محمدیوں کے یہاں بہترین ذکر تلاوت قرآن اور مطالعہ حدیث ہے نیز ان کے نکات کو سمجھنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح نالہ عندلیب (مولفہ ناصر عندلیب) کا مطالعہ بھی محمدیین کے یہاں اہمیت کا حامل ہے۔ محمدی گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے اس طریقہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ وہ توبہ استغفار کرے لیکن مکرم و محترم محمدی وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو وغیرہ۔ اس تصنیف سے ان کی عربی و فارسی دانی نیز دونوں زبانوں پر ان کی قدرت و مہارت کا بھی علم ہوتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں کویی ایسا موقع نہیں چھوڑا جہاں اپنی عربی دانی کا ثبوت نہ دیا ہو۔ اس کتاب میں عرفانی بیان کے ساتھ ساتھ سکر و صحو، رویت و تجلی خدا تعالی، فنا و بقا، قبض و بسط، رسالت و ولایت، حقیقت کشف و کرامت، خلوت و جلوت وغیرہ جیسے بہت سے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گیی ہے جو تصوف کے باب میں نکتہ پرکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مطالب کو بیان کرتے وقت سادگی بیان کے باوجود ان کی عبارات جابجا ثقیل و گنجلک نظر آتی ہے خاص طور پر جب ان کی بحث فلسفہ و کلام جیسے موضوعات پر ہو۔ انہوں نے اس کتاب میں صنعت اقتباس کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے 
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے 

خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔ یقیناً دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے لیکن انہیں محض اک صوفی شاعر کہنا ان کی شاعری کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ابتدائی تذکرہ نویسوں نے ان کی شاعری کو اس طرح محدود نہیں کیا تھا، صوفی شاعر ہونے کا ٹھپہ ان پر بعد میں لگایا گیا۔ میر تقی میرؔ نے، جو اپنے سوا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے، انہیں ریختہ کا "زور آور" شاعر کہتے ہوئے انہیں "خوش بہار گلستان سخن" قرار دیا۔ محمد حسین آزاد نے کہا کہ کہ دردؔ تلواروں کی آبداری اپنے نشتروں میں بھر دیتے ہیں، مرزا لطف علی صاحب، "گلشن سخن" کے مطابق دردؔ کا کلام "سراپا درد و اثر" ہے۔ میر حسن نے انھیں، آسمان سخن کا خورشید قرار دیا، پھر امداد اثرنے کہا کہ معاملات تصوف میں ان سے بڑھ کر اردو میں کوئی شاعر نہیں گزرا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان (اردو) کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سےآشنا کیا۔ ان حضرات نے بھی دردؔ کو تصوف کا ایک بڑا شاعر ہی مانا ہے ان کے کلام کی دوسری صفات سے انکار نہیں کیا ہے۔ شاعری کی پرکھ، یوں بھی "کیا کہا ہے" سے زیادہ " کیسے کہا ہے" پر مبنی ہوتی ہے دردؔ کی شاعری کے لئے بھی یہی اصول اپنانا ہو گا۔ 

دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ ان کے بعض سادہ اشعار پر میرؔ کے اسلوب کا دھوکہ ضرور ہوتا ہے لیکن توجہ سے دیکھا جائے تو دونوں کا اسلوب یکسر جداگانہ ہے۔ درد کی شاعری میں غور و فکر کا عنصر نمایاں ہے جبکہ میرؔ فکر کو احساس کا تابع رکھتے ہیں البتہ عشق میں سپردگی اور گداز دونوں کے یہاں مشترک ہے اور دونوں آہستہ آہستہ سلگتے ہیں۔ دردؔ کے یہاں مجازی عشق بھی کم نہیں۔ جیتے جاگتے محبوب کی جھلکیاں جا بجا ان کے کلام میں مل جاتی ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے۔ 

کہا جب میں ترا بوسہ تو جیسے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے پر قند مکرر ہو نہیں سکتا

دردؔ کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی اور ایسا بھی جہاں عشق و مجاز کی سرحدیں باقی نہیں رہتیں۔ لیکن ان تینوں طرح کے اشعار میں احساس کی صداقت واضح طور پر نظر آتی ہے، اسی لئے ان کے کلام میں تاثیر ہے جو صناعی کے شوقین شعراء کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ دردؔ نے خود کہا ہے، "فقیر نے کبھی شعر آورد سے موزوں نہیں کیا اور نہ کبھی اس میں مستغرق ہوا۔ کبھی کسی کی مدح نہیں کی نہ ہجو لکھی اور فرمائش سے شعر نہیں کہا۔" درد ؔکے عشق میں بے چینی نہیں بلکہ ایک طرح کی طمانیت قلب، سکون اور پاکیزگی ہے جعفر علی خاں اثر کے بقول دردؔ کے پاکیزہ کلام کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔ 

دردؔ کے کلام میں عشق و عقل، جبر و اختیار، خلوت اور انجمن، سفر در سفر، بے ثباتی وبے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لامکاں، وحدت و کثرت، جزو و کل توکل اور فقر کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ فی زمانہ، تصوف کا وہ برانڈ، جس کے دردؔ تاجر تھے، اب فیشن سے باہر ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ سنجیدہ طبقہ میں سرمد اور رومی کا برانڈ اور عوام میں بلھے شاہ، سلطان باہو اور "دما دم مست قلندر" والا برانڈ زیادہ مقبول ہے۔ 

غزل کی شاعری برملا کم اور اشاروں میں زیادہ بات کرتی ہے اس لئے اس میں معانی کی حسب منشاء جہات تلاش کر لینا کوئی مشکل کام نہیں یہ غزل کی ایسی طاقت ہے کہ وقت کے تند جھونکے بھی اس چراغ کو نہیں بجھا سکے۔ ایسے میں اگر مجنوں گوکھپوری نے درد کے کلام میں "کہیں دبی ہوئی اور کہیں اعلانیہ، کبھی زیر لب اور کبھی کھلے ہونٹوں شدید طنزکے ساتھ زمانہ کی شکایت اور زندگی سے بیزاری کی علامتیں" تلاش کیں تو بہرحال ان کا ماخذ دردؔ کا کلام ہی تھا۔ مجنوں کہتے ہیں درردؔ اپنے زمانہ کے حالات سے نا آسودگی کا اظہار کرتے ہیں۔ 

دردؔ کے کلام کو ان کے زمانہ کے معاشرتی اور فکری ماحول اور ان کی نجی شخصیت کے حوالہ سے پڑھنا چاہیے۔ جہاں تک پیرایۂ بیان کا تعلق ہے اپنی بات کو دبے لفظوں میں تشنۂ وضاحت چھوڑ جانا دردؔ کو تمام دوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ اس طرح کے اشعار میں ان کہی بات، وضاحت کے مقابلہ میں زیادہ اثردار ہوتی ہے۔ حیرت و حسرت کا یہ دھندھلا سا اظہار ان کے اشعار کا خاص جوہر ہے۔ اس سلسلہ میں رشید حسن خاں نے پتے کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں، "دردؔ کے جن اشعار میں خالص تصوف کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں یا جن میں مجازیات کو صاف صاف پیش کیا گیا ہے وہ نہ دردؔ کے نمائندہ اشعار ہیں نہ ہی اردو غزل کے۔ یہ بات ہم کو مان لینی چاہئے کہ اردو میں فارسی کی صوفیانہ شاعری کی طرح بلند پایہ متصوفانہ شاعری کا فقدان ہے۔ ہاں، اس کے بجائے اردو میں حسرت، تشنگی اور یاس کا جو طاقتور آہنگ کار فرما ہے، فارسی غزل اس سے بڑی حد تک خالی ہے۔"

مجموعی طور پر دردؔ کی شاعری دل اور روح کو متاثر کرتی ہے۔ جذباتیت اور شاعرانہ "استادی" کا اظہار ان کا شعار نہیں، دردؔ موسیقی کے ماہر تھے، ان کے کلام میں بھی موسیقیت ہے۔ دردؔ تبھی شعر کہتے تھے جب شعر خود کو ان کی زبان سے کہلوا لے۔ اسی لئے ان کا دیوان بہت مختصر ہے۔

 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے