aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میراجی جدید نظم کے بنیاد گزار شاعروں میں سے ہیں ،ایک بڑے تخلیق کار کی حیثیت سے ان کی شناخت عام ہے لیکن کم لوگ میراجی کی نثر سے واقف ہیں ۔میراجی نے بہت سے ترجمے بھی کئے۔ دامودر گپت کی شعری تخلیق نٹنی متتم کا نثری ترجمہ نگارخانہ کے نام سے کیا ۔لیکن میراجی کے ان کارناموں کےحوالے سے لوگوں کا عمومی رویہ ناواقفیت کا ہی رہا ہے ۔میراجی کی اس کتاب کے ساتھ بھی ہوا ۔ہم ریختہ ای بک کی خصوصی پیشکش کے تحت آپ تک یہ کتاب پہنچا رہے ہیں ۔اس کتاب میں شامل نظموں کے تجزئے صلاح الدین کے ماہنامہ ادبی دینا میں چھپتے تھے ۔میراجی کا طریقہ کاریہ تھا کہ وہ ہر ماہ اس وقت لکھی جانے والی نظموں میں سے کسی ایک نظم کا انتخاب کرتے تھے اور اس پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے تھے۔حلقہ ارباب ذوق کی نششتوں میں بھی نظموں کے تجزئے کئے جاتے تھے ۔دراصل اس زمانے میں ترقی پسند فکر کی شدت پسندی کی بنا پر کسی فن پارے کو پرھنے سمجھنے اور اس کی تعیین قدر کے پیمانے ادبی اور تخلیقی سے زیادہ غیر ادبی اور غیر تخلیقی ہو گئے تھے ،میراجی کی ان تحریرں نے کسی فن پارے پر مکالمے میں ادبی اور تخلیقی حوالوں کو مطالعے کی اساس کے طور پر قائم کیا ۔آپ یہ کتاب پڑھئے اور اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔
میرا جی اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے علامتی شاعری کو نیا انداز اور فروغ دیا۔ ن م راشد کا ماننا تھا کہ میراجی محض شاعر نہیں بلکہ ایک ادبی مظہر تھے۔
میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ ان کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی۔ کشمیری نژادکے خاندان سے تعلق رکھنے والے میراجی نے علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ادبی دنیا کے معروف جریدے “ادبی دنیا” سے منسلک ہوئے، جہاں انہوں نے مضامین لکھے اور مشرق ومغرب کے شاعروں کے تراجم کئے۔
میراجی کی شاعری انسانی شعور اور تحْتُ الشّعُور کی کیفتیوں کو نئی زبان اور علامتوں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں اور مختلف تراجم شامل ہیں۔ 3 نومبر 1949 کو بمبئی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔