aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سید آل رضا کا تحریر کردہ مرثیہ "اسلام دین عظمت انسان ہے دوستو" پیش نظر ہے۔ یہ ایک طویل مرثیہ ہے جو ایک سو چھپن بندوں پر مشتمل ہے۔ جس میں بلا کی روانی اور غضب کا سوز ہے۔
اردو ادب کے مقبول شاعر، مرثیہ نگار سید آلِ رضا رضا کا شمار اپنے عہد کے استاد شاعروں میں ہوتا تھا۔ سید آلِ رضا 10 جون 1896ء کو ضلع انائو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے۔ سید آل رضا نے 1916ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ء میں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کر کے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔ 1921ء میں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے، جہاں 1927ء تک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ء کے بعد دوبارہ لکھنؤ میں سکونت اختیار کر لی۔
سید آل رضا رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ء میں باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط و کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ء میں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ’’نوائے رضا‘‘ لکھنؤ سے اور 1959ء میں دوسرا مجموعہ ’’غزل معلی‘‘ کراچی سے شائع ہوا۔ انہوں نے اپنا پہلا مرثیہ 3 اپریل 1939ء کو لکھنؤ میں ناظم صاحب کے امام باڑے میں پڑھا، اس مجلس میں لکھنؤ کے عالم، ادیب، شاعر اور اہل ذوق کثیر تعداد میں شامل تھے۔ ان کے دونوں مرثیے 1944 میں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔
اپنی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے غزل گوئ ترک کر دی تھی، اور صرف رباعیاں، سلام اور مرثیے کہتے تھے۔ انہوں نے تقریباً 80 رباعیاں، 45 سلام اور 20 مرثیے کہے۔ سید آلِ رضا نے لکھنؤ 1948ء میں چھوڑا، ان کے دوست شعرا اور اہلِ قلم نے انہیں بہت روکا لیکن ان کی شفقتیں اور محبتیں ان کی راہ میں حائل نہ ہوئیں اور وہ ترک وطن کر کے کراچی میں مقیم ہو گیے۔
قیام پاکستان کے بعد "نور باغ" کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ’’شہادت سے پہلے‘‘ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے گئے۔ کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے- 1 مارچ 1978ء کو سید آل رضا وفات پا گئے۔ کراچی میں "علی باغ" کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔