aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غالب کی اہمیت اردو زبان میں وہی ہے جو حافظ شیرازی کی فارسی زبان میں۔ جس طرح سے حافظ شیرازی فارسی غزلیات کا سب سے بڑا شاعر ہے اسی طرح غالب اردو غزلیات کا امام ہے بلکہ غالب کی نثر کو اگر شامل کر لیا جائے تو شاید حافظ سے چند گام آگے نکل جائے۔ اردو زبان میں سب سے زیادہ پڑھا اور سمجھا جانے والا شاعر غالب ہی ہے اور اسی کو سب سے زیادہ سمجھایا گیا ہے۔ وہی سب سے زیادہ چھاپا گیا ہے۔ غالب کو اگرچہ اپنی فارسی دانی پر ناز تھا مگر شہرت انہیں ان کی اردو شاعری کی وجہ سے ملی جسے وہ "بے رنگ من "کہہ کر پکارتے تھے۔ زیر نظر کتاب دیوان غالب کی شرح ہے جو ردیف کے حساب سے مشرح کی گئی ہے۔ جس میں وہ سب سے پہلے شعر نقل کرتے ہیں پھر اس شعر کے مشکل الفاظ کی گرہ کھولتے ہیں پھر مضمون کی عقدہ کشائی کرتے ہیں اور شعر کے ہر ہر پہلو پر بات کرتے ہیں۔ اس لئے دیوان غالب کو سمجھنے کے لئے یہ ایک بہترین شرح ہے جو اردو کے شائقین اور غالب کے پڑھنے والوں کے لئے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ خیال رہے کہ کلام غالب کی مقبولیت کے پیش نظر کئی لوگوں نے ان کلام کی شرح کی ہے، زیر نظر شرح کو ناطق گلاوٹھوی نے انجام دیا ہے۔
سید ابوالحسن جو اُردو شاعری میں ناطق کہلائے ان کا آبائی وطن گلاوٹھی(ضلع میرٹھ) تھا، اسی نسبت سے ان کے تخلص میں گلاؤٹھوی کا لاحقہ شامل تھا ناطق کا سلسلۂ نسب ساداتِ گیلان سے ملتا ہے روایت ہے کہ ان کے مورثِ اعلیٰ سید منہاج الدین، ۔۔۔احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندستان تشریف لائے تھے۔غدر کے ہنگامے میں ان کی جدّی جائیداد ضبط کرلی گئی اور ان کے ایک تایا کو پھانسی بھی دی گئی۔ ناطقؔ کی تعلیم گلاؤٹھی ہی میں ہوئی،پھرانہوں نے دارالعلوم(دیوبند) سےعلوم ِعربیہ کی سند حاصل کی۔ ذاتی کوشش اور مطالعے سےانہوں نےانگریزی میں بھی خاصی استطاعت پیدا کر لی تھی۔
ناطق گلاؤٹھوی نے 1900 میں شاعری کا آغاز کیا اور سن 1904 میں میرزا داغ دہلوی کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوگئے، ابھی چار چھ غزلوں ہی پر اصلاح لی تھی کہ اُستاد، داغِ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد ناطقؔ نے کسی سے اصلاح نہیں لی،ہمیشہ اپنے کلام پر خود تنقیدی اور اصلاحی نظر ڈالی، مولانا ناؔطق تنقیدی وصف کے بھی حامل شخص تھے ، ناگپور کے ممتاز اور اُردو کے معروف محقق ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ لکھتے ہیں:’’۔۔۔( مولانا ناطق کا ) اشہبِ قلم تنقید کے میدان میں اس قدر تیزی سے دوڑتا کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا، وہ زبان و بیان اور تاریخی واقعات کی غلطیوں کو اُجاگر کرکے رکھ دیتے۔۔۔ آتش لکھنوی،امیرمینائی،یاس یگانہ چنگیزی، حالی، اقبال،سیماب اکبر آبادی،نیاز فتح پوری جگر مراد آبادی، ماہر القادری پر ان کی بے لاگ تنقید میں یہی جذبہ کارفرما نظر آتاہے‘،اس حقیقت کو ان کی کتاب’ سبع سیارہ‘ میں دیکھا جاسکتا ہے جو فیض عام پریس لکھنؤ سے سن 1960 میں 144 صفحات پر شائع ہوئی ہے۔
‘‘ندا فاضلی نے اپنی کتاب’’چہرے ‘‘ میں مطلع کیا ہے کہ ناطق صاحب غزل کے ساتھ نظمیں بھی کہتے تھے ،ان کی نظموں کا مجموعہ’ نطق ِ ناطق‘ سن 1913 میں شائع ہوا تھا۔
ناطق گلاؤٹھوی نے مرزا نوشہ کےکلام کی شرح بھی لکھی جو ’کنز المطالب‘ کے نام سے والیؔ آسی نے مکتبۂ دین وادب(لکھنؤ) سے شائع کی تھی۔ ناطق ؔکے شعر شعر پیش خدمت ہیں:
اپنی رسوائی کا غم تھا جب ہمیں، وہ دن گئے* اب تو یہ غم ہےکہ ایسی پھر نہ رسوائی ہوئی
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں* کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
ناطقؔ بسلسلۂ ملازمت عرصہ ٔدراز تک ناگپور میں مقیم رہے اور یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ سیاست میں بھی حصہ لیا اور تیس برس تک ناگپور میونسپل کمیٹی کے رُکن رہے اورسن 1926 میں مرکزی اسمبلی کے رُکن منتخب کیے گئے۔عمر کے آخری زمانے میں خرابیٔ صحت کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور خانہ نشیں ہوگئے۔ اُن کی تاریخِ پیدائش سن1886 کی11 نومبر ہےسن1969 کی 27 مئی کو یعنی آج ہی کی تاریخ ناگپور میں انہوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free