aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کی نظموں میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ زیر نظر مجموعہ ان کی نظمیہ و غزلیہ شاعری کا بہترین ترجمان ہے۔
نام سید غلام عباس اورمحسن تخلص تھا۔ ۵؍مئی۱۹۴۷ء کو ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول، ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خاں(موجودہ نام ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ) میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری میں شفقت کاظمی اور عبدالحمید عدم سے رہنمائی حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ’’ہلال‘‘ میں باقاعدہ ہفتہ وار قطعہ اور کالم لکھنا شروع کیا۔ اسی سال ملتان کے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ہفتے وار کالم لکھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۹۶ء کولاہور میں کسی نامعلوم شخص کی گولی سے جاں بحق ہوگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’بند قبا‘، ’برگ صحرا‘، ’ریزہ حرف‘، ’موج ادراک‘، ’ ردائے خواب‘، ’عذاب دید‘، ’طلوع اشک‘، ’رخت شب‘، ’خیمہ جاں‘، ’فرات فکر‘، ’میرا نوحہ انھی گلیوں کی ہوا لکھے گی‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:386
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets