aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
’’ندا کے تخیّل کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ایک ہی مصرع میں مختلف حواس سے مستعار اتنے سارے شعری پیکر جمع کر لیتے ہیں کہ ہمارے تمام حواس جاگ اٹھتے ہیں۔ مصرع وہ بجلی کا تار بن جاتا ہے جس کی برقی رو ہم اپنی رگوں میں دوڑتی محسوس کرتے ہیں۔ یہ تاثؔر اور تاثیر نہیں تو شاعری راکھ کا ڈھیر ہے۔‘‘
وارث علوی
ندا فاضلی اردو اور ہندی کے اک ایسے ادیب،شاعر،نغمہ نگار،مکالمہ نویس اور صحافی تھے جنھوں نے اردو شاعری کو اک ایسا لب و لہجہ اور اسلوب دیا جس کو اردو ادب کی اشرافیہ نے ان سے پہلے قابل اعتناء نہیں سمجھا تھا۔ان کی شاعری میں اردو کا اک نیا شعری محاورہ وجود میں آیا جس نے نئی نسل کو متوجہ اور متاثر کیا۔ ان کے اظہار میں سنتوں کی بانی جیسی سادگی،اک قلندرانہ شان اور لوک گیتوں جیسی مٹھاس ہے۔ان کے مخاطب عام لوگ تھے لہٰذا انھوں نے ان کی ہی زبان میں گفتگو کرتے ہوے لطیف اور غیر جارحانہ طنز کے ذریعہ دل میں اتر جانے والی باتیں کیں ۔انھوں نے امیر خسرو،میر،رحیم اور نظیر اکبرابادی کی بھولی بسری شعری روایت سے دوبارہ رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوے نہ صرف اس روایت کی بازیافت کی بلکہ اس میں عصر حاضر کی لسانی ذہانت جوڑ کر اردو کے نثری ادب میں بھی نئے امکانات کی نشاندہی کی۔وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی الگ راہ بنا لی۔وارث علوی کے بقول ندا ان چند خوش قسمت لوگوں میں ہیں جن کی شاعری اور نثر دونوں لوگوں کو رجھا گئے۔ اپنی شاعری کے بارے میں ندا کا کہنا تھا "میری شاعری نہ صرف ادب اور اس کے قارئین کے رشتے کو ضروری مانتی ہے بلکہ اس کے معاشرتی سیاق کو اپنا معیار بھی بناتی ہے۔میری شاعری بند کمروں سے باہر نکل کر چلتی پھرتی زندگی کا ساتھ نبھاتی ہے۔اُن حلقوں میں جانے سے بھی نہیں ہچکچاتی جہاں روشنی بھی مشکل سے پہنچ پاتی ہے۔ میں اپنی زبان تلاش کرنے ،سڑکون پر،گلیوں میں ، جہاں شریف لوگ جانے سے کتراتے ہیں،وہاں جا کر اپنی زبان لیتا ہوں۔ جیسے میر،کبیر،اور رحیم کی زبانیں۔میری زبان نہ چہرہ پر داڑھی بڑھاتی ہے اور نہ پیشانی پر تلک لگاتی ہے"۔ ندا کی شاعری ہمیشہ نظریاتی ہٹ دھرمی اور ادعائیت سے پاک رہی۔انھوں نے علامتوں کے ذریعہ ایسی پیکر تراشی کی کہ سامع یا قاری کو اسے سمجھنے کے لئے کوئی ذہنی ورزش نہیں کرنی پڑتی۔ ان کے شعری کردار اودھم مچاتے ہوئے شریر بچّے،اپنے راستہ پر گزرتی ہوئی کوئی سانولی سی لڑکی،روتا ہوا کوئی بچہ،گھر میں کام کرنے والی بائی جیسے لوگ ہیں ۔ندا کے یہاں ماں کا کردار بہت اہم ہے جسے وہ کبھی نہیں بھول پاتے۔۔"بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹّی چٹنی جیسی ماں۔۔۔ یاد آتی ہے چوکا باسن،چمٹا، پھکنی جیسی ماں"۔
ندا فاضلی 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا ۔ان کے والد مرتضیٰ حسن شاعر تھے اور دعا ڈبائیوی تخلص کرتے تھے۔اور ریاست گوالیار کے محکمہ ریلوے میں ملازم تھے۔گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا جس نے ندا کے اندر کمسنی سے ہی شعر گوئی کا شوق پیدا کر دیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی اور انھوں نے وکرم یونیورسٹی اُجین سے اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ملک کی تقسیم کے بعد مہاجرین کی آمد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے سبب ان کے والد کو گوالیار چھوڑنا پڑا اور وہ بھوپال آ گئے۔اس کے بعد انھوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ندا گھر سے بھاگ نکلے اور پاکستان نہیں گئے۔گھر والوں سے بچھڑ جانے کے بعد ندا نے اپنی جد و جہد تنہا جاری رکھی۔اور اپنے وقت کو مطالعہ اور شاعری میں صَرف کیا۔شاعری کی مشق کرتے ہوئے انھیں احساس ہوا کہ اردو کے شعری سرمایہ میں ایک چیز کی کمی ہے اور وہ یہ کہ اس طرح کی شاعری سننے سنانے میں تو لطف دیتی ہے لیکن انفرادی جذبون کا ساتھ نہیں دے پاتی۔اس احساس میں اس وقت شدت پیدا ہو گئی جب ان کے کالج کی ایک لڑکی مس ٹنڈن کا،جس سے انھیں جذباتی لگاؤ ہو گیا تھا اک حادثہ میں انتقال ہو گیا۔ ندا کو اس کا بہت صدمہ ہوا لیکن ان کو اپنے دکھ کے اظہار کے لئے اردو کے سرمایۂ ادب میں ایک بھی شعر نہیں مل سکا۔اپنی اس خلش کا جواب ندا کو اک مندر کے پجاری کی زبانی سور داس کے اک گیت میں ملا جس میں کرشن کے ہجر کی ماری رادھا باغ کو مخاطب کر کے کہتی ہے کہ تو ہرا بھرا کس طرح ہے کرشن کی جدائی میں جل کیوں نہیں گیا۔ یہیں سے ندا نے اپنا نیا ڈکشن وضع کرنا شروع کیا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔انھوں نے دھرم یگ اور بلٹز جیسے رسالوں اور اخبارات میں کام کیا۔اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں بھی ان کی پہچان بنتی گئی۔وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام "لفظوں کا پُل " کی بیشتر نظمیں،غزلیں اور گیت بمبئی آنے سے پہلے لکھ چکے تھے اور ان کی نئی آواز نے لوگوں کو انکی طرف متوجہ کر دیا تھا۔یہ کتاب 1971ء میں منظر عام پر آئی اور ہاتوں ہاتھ لی گئی۔وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔فلمی دنیا سے ان کا تعلق اس وقت شروع ہوا جب کمال امروہی نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لئے ان سے دو گیت لکھواے۔اس کے بعد ان کو بطور نغمہ نگار اور مکالمہ نویس مختلف فلموں میں کام ملنے لگا اور ان کی فاقہ مستی دور ہو گئی۔بہرحال وہ فلموں میں ساحر ،مجروح ، گلزار یا اختر الایمان جیسی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن بطور شاعر اور نثر نگار انھوں نے ادب پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔لفظوں کا پل کے بعد ان کے کلام کے کئی مجموعے،مور ناچ،آنکھ اور خواب کے درمیان،شہر تو میرے ساتھ چل،زندگی کی طرف ،شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوے۔ان کی نثری تحریروں میں دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ" اور "دیواروں کے باہر "کے علاوہ مشہور شعراء کے خاکے "ؐ ملاقاتیں " شامل ہیں۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ندا کو ان کی کتاب "کھویا ہوا سا کچھ" پر 1998 میں ساہتیہ اکیڈمی اوارڈ دیا گیا۔2013 میں حکومت ہند نے انھیں "پدم شری" کے اعزاز سے نوازا۔فلم "سُر" کے لئے ان کو اسکرین اوارڈ ملا۔اس کے علاوہ مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں نے انھیں انعامات دئے۔ان کی شاعری کے تراجم مختلف ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں کئے جا چکے ہیں 8 فروری 2016 کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔
ندا کی شاعری میں کبیر کے فلسفۂ حیات کی وہ اقدار نمایاں ہیں جو مذہبیت کے مروجہ فلسفے سے زیادہ بلند و برتر ہے اور جن کا جوہر انسانی درد مندی میں ہے۔ندا ساری دنیا کو ایک کنبے اور اور سرحدوں سے آزاد اک آفاقی حیثیت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ان کے نزدیک ساری کائنات اک خاندان ہے۔۔چاند،ستارے،درخت،ندیاں،پرندے،اور انسان سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں لیکن یہ رشتے اب ٹوٹ رہے ہیں اور اقدار رو بہ زوال ہیں۔ان کاماننا تھا کہ ایسے میں آج کے ادیب و شاعر کا فرض ہے کہ وہ ان رشتوں کو پھر سے جوڑنے اور بچے ہوئے رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کرے۔ان کے مطابق رشتوں کی بازیافت،باہمی ربط اور فرد کو اس کی شناخت عطا کرنے کا کام اب ادیب و شاعر کے ذمہ ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free