aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
استا د قمرجلالوی اردو کی نامور غزل گو، مرثیہ گو اور منقبت نگار شاعر تھے۔ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی، شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے، سلام،منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کی سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔ استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔انھوں نے مرثیوں میں تشبیہات اور استعارات کے نہایت دلکش نقش و نگار بنائے ہیں اور عجب خوشنما رنگ بھرے ہیں ۔استاد قمر جلالوی کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل ، مثنوی کا تسلسل ، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔زیر نظر کتاب"خواب میں حضرت زہراؑ کو جو حر نے دیکھا"جناب حر کے احوال پر لکھا ہوا مرثیہ ہے، جس میں غایت درجہ سوز و گداز پایا جاتا ہے۔
نام سید محمد حسین، قمر تخلص۔ ۱۸۸۷ء میں قصبہ جلالی، ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بچپن میں سید زندہ علی سے باقاعدہ اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ضلع علی گڑھ میں بائیسکل کی دکان تھی، یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ امیر مینائی ان کے روحانی استاد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ معاش کے لیے پاکستان کوارٹرز میں سائیکل کی دکان کرلی تھی۔ شاعری کے جملہ اصناف سخن پر قادر تھے۔ ہندوستان اور پاکستان میں آپ کے متعدد شاگرد تھے۔ ۲۴؍اکتوبر۱۹۶۸ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ یہ کلاسیکی روایت کے آخری مقبول شاعر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے قدر دانوں نے ان کی حسب ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’عقیدت جاوداں‘(سلام اور مراثی کا مجموعہ)، ’رشک قمر‘، ’روح قمر‘، ’غم جاوداں‘، ’اوج قمر‘۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free