aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ساحر لدھیانوی کام نام تصور میں ابھر تے ہی بالی ووڈ کے کئی خوبصورت گیت کے ساتھ ان کی کئی لازوال نظمیں بھی آپ کے ذہن میں آگئی ہوں گی ۔ یہ اردو کا واحد ایسا شاعر تھا جو فلمی اور ادبی دونوں دنیاوں کے لیے بخوبی جیا ۔ فلمی دنیاکے لیے توانہون نے بے شمار نغمے لکھے۔ ان کا رجحان تر قی پسندی کی جانب تھا اور ان کو تر قی پسندی کی ترویج کے لیے فلمی دنیا میں ایسے ساتھی ملے جو ان کے ہم خیال تھے اس لیے تو ان کی شاعری میں آپ کو یاس کم اور امید زیادہ ملے گی۔ وہ ایک نئی صبح کی تعمیر کر نا چاہ رہے تھے اور تر قی پسندوں کے منشور میں بھی یہ تھا کہ وہ مزدور طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں تو ساحر کی بھی اکثر تخلیقات میں متوسط و کمزور طبقہ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حسن و عشق کا حسین احساس بھی ان کی شاعر ی میں آپ کو ملے گا ۔ وقت کے بدلتے رنگ و ڈھنگ کے لیے ان کی شاعر ی بہت مقبول رہی ہے ۔ ان کے یہاں درد کا لہجہ بھی آپ کو پڑھنے کو ملے گا ۔ان کی شاعری تین دہائیوں پرپھیلی ہوئی ہے ان کے یہاں شور و پکار نہیں بلکہ احتجاج ہے، شان و شکوہ نہیں ڈرامائی تناؤہے اور ان کی شاعری میں طمطراق نہیں بلکہ ہر ایک منظر اپنی اذیت یا مسرت کا اظہار ہے۔ زیر نطر کلیات، میں ساحر کے ابتدائی حالات بھی مزکور ہیں۔
تازہ بیان البیلا شاعر
’’ساحر نے ہیئت کے بجائے معنی اور موضوع اور سب سے زیادہ اندازِ بیان میں اجتہاد کیا ہے۔ اس کی شاعری کی بنیاد شدّت احساس پر ہے اور میرے خیال میں اُس کے اسلوب کا حسن بھی شدید احساس سے ہی عبار ت ہے، ساتھ ہی اسے ابہام سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ احمد ندیم قاسمی
اپنی شاعری کے ذریعہ، بطور خاص، نوجوانوں کے دلوں کو گرمانے اور فلموں کے لئے ادبیت سے بھرپور نغمے لکھنے کے نتیجہ میں معترضین کی جانب سے "عنفوان شباب کا شاعر" قرار دئے جانے والے ساحر لدھیانوی ان مقبول عام شاعروں میں سے ایک ہیں جن پر ترقی پسند شاعری بجا طور پر ناز کر سکتی ہے۔ جہاں تک ٹین ایجرس کا شاعر ہونے کا تعلق ہے،اس کا جواب سردار جعفری نے یہ کہہ کر دے دیا ہےکہ "جس نے ساحر لدھیانوی کو یہ کہہ کر کمتر درجہ کا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ نوعمر لڑکے لڑکیوں کا شاعر ہے ،اس نے ساحر کی شاعری کی صحیح قدر و قیمت بیان کی ہے۔ نوعمر لڑکے لڑکیوں کے لئے شاعری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اُن کے دل میں تروتازہ امنگیں ہوتی ہیں، آلودگی سے پاک آرزوئیں ہوتی ہیں،زندگی کے خوبصورت خواب ہوتے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ اُن کے جذبات و کیفیات کو ساحر نے جس طرح شاعرانہ روپ دیا ہے وہ اس کے کسی ہم عصر شاعر نے نہیں دیا۔ اُس سے پہلے کے شاعروں سے اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔" بہرحال یہ تو معترضین کے الزام کا جواب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ رومان اور احتجاج کی آمیزش سے ساحر نے اپنی انفرادیت کے ساتھ ترقی پسند تحریک کی شاعری کو اک نیا رُخ دیا۔ ساحر کے اسلوب کی نرمی، شایستگی اور سرشاری اُن کے طرز و آہنگ کو ان کے ہم عصروں سے جدا کرتی ہے۔ ویسے ساحر کی رومانی نظموں کا آہنگ رومانی ہے اور سیاسی و انقلابی نظموں کا اسلوب و آہنگ احتجاجی ہے۔ ان کی سیاسی اور احتجاجی نظموں میں اک گرمی،اک تپش ہے۔ ان کا انداز بیان،ان کا لفظوں کا انتخاب،تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال کا طریقہ اتنا مکمل اور جامع ہے جو دوسرے شعراء کی دسترس سے باہر ہے۔ بڑی عمر کے شعراء بھی ان کو حقیقی شاعر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے اشعار تنقید کے معیار پر بھی پورے اترتے ہیں۔ نغمگی،موسیقیت اور تغزل کی آمیزش نے ان کی غزلوں، نظموں اور گیتوں میں تاثیر کی شدت پیدا کرتے ہوئے،انھیں مقبولِ خاص و عام بنا دیا۔
ساحرلدھیانہ کے اک جاگیردار گھرانے میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے اور ان کا نام عبدالحئی رکھا گیا۔ان کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا اور وہ انکی گیارھویں، لیکن خفیہ، بیوی سردار بیگم سے ان کی پہلی اولاد تھے۔ ساحر کی پیدائش کے بعد ان کی ماں نے اصرار کیا کہ ان کے رشتہ کو باقاعدہ شکل دی جائے تاکہ آگے چل کر وراثت کا کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ چودھری صاحب اس کے لئے راضی نہیں ہوئے تو سردار بیگم ساحر کو لے کر شوہر سے الگ ہو گئیں۔ اس کے بعد ساحر کی تحویل کے لئے فریقین میں مدّت تک مقدمہ بازی ہوئ۔ ساحر کی پرورش ان کے نانہال میں ہوئی۔ جب اسکول جانے کی عمر ہوئی تو ان کا داخلہ مالوہ خالصہ اسکول میں کرا دیا گیا جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانہ میں لدھیانہ اردو کا متحرک اور سرگرم مرکز تھا۔ یہیں سے انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور میٹرک میں پہنچتے پہنچتے وہ شعر کہنے لگے۔ 1939 میں اسی اسکول سے انٹرنس پاس کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔ اسی زمانہ میں ان کا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا اور وہ کمیونسٹ تحریک کی طرف راغب ہو گئے۔ ملک اور قوم کے حالات نے ان کے اندر سرکشی اور بغاوت پیدا کی۔ بی اے کے آخری سال میں وہ اپنی اک ہم جماعت ایشر کور پر عاشق ہوئے اور کالج سے نکالے گئے۔ وہ کالج سے بی اے نہیں کر سکے لیکن اس کی فضا نے ان کو اک خوبصورت رومانی شاعر بنا دیا۔ ان کا پہلا مجموعہ "تلخیاں" 1944 میں شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کالج چھوڑنے کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ وہاں سے بھی نکالے گئے پھر ان کا دل تعلیم کی طرف سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ اس زمانہ کے معیاری ادبی رسالہ "ادب لطیف "کے ایڈیٹر بن گئے۔ بعد میں انھوں نے سویرا اور اپنے ادبی رسالہ شاہکار کی بھی ادارت کی۔ اسی زمانہ میں ان کے کالج کے اک دوست آزادی کی تحریک پر ایک فلم "آزادی کی راہ پر" بنا رہے تھے۔ انھوں نے ساحر کو اس کے گیت لکھنے کی دعوت دی اور ساحر بمبئی چلے آئے۔ یہ فلم نہیں چلی۔ ساحر کو بطور گیت کار فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عامیانہ گیت لکھنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ آخر اک دوست کے توسط سے ان کی ملاقات ایس ڈی برمن سے ہوئی جن کو اپنے مزاج کے کسی گیت کار کی ضرورت تھی۔ برمن نے ان کو اپنی ایک دھن سنائی اور ساحر نے فوراً اس پر" ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں" کے بول لکھ دئے۔ برمن پھڑک اٹھے۔ اس کے بعد وہ ایس ڈی برمن کی دھنوں پر باقاعدگی سے گیت لکھنے لگے اور اس جوڑی نے کئی یادگار گانے دئے۔
ساحر نے بچپن اور جوانی میں بہت پر خطر اور کٹھن دن گزارے جس کی وجہ سے انکی شخصیت میں شدید تلخی گھل گئی تھی۔ دنیا سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کی ایک زیریں لہر ان کی شخصیت میں رچ بس گئی تھی جس کے مظاہر وقتا فوقتاً سامنے آتے رہتے تھے۔ انھوں نے یوں ہی نہیں کہہ دیا تھا "دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں/ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں۔" ان کے معاشقوں کا قصہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ امرتا پریتم اور سدھا ملہوترا کے ساتھ ان کے معاشقوں کا خوب شہرہ رہا۔ لیکن انھوں نے کبھی شادی نہیں کی۔ لڑکیوں کے ساتھ ان کا معاملہ کچھ اس طرح تھا کہ پہلے وہ کسی پر عاشق ہوتے اور جب وہ خود بھی ان کے عشق میں گرفتار ہو جاتی تو معشوق بن جاتے اور اس کے ساتھ وہی سب کرتے جو اردو غزل کی جفاکار معشوقہ اپنے عاشقوں کے ساتھ کرتی ہے اور بالآخر الگ ہو جاتے۔ اور اس طرح وہ زندگی کی محرومیوں سے اپنا انتقام لے کر خود اپنا سینہ لہو لہان کرتے۔ امرتا کے ساتھ ان کا معاملہ بڑا رومانی اور عجیب تھا۔ امرتا شادی شدہ ہونے کے باوجود ان پر مر مٹی تھیں۔ عالم یہ تھا کہ جب ساحر ان سے ملتے اور سگرٹیں پھونک کر واپس چلے جاتے تو تو وہ ایش ٹرے سے ان کی بجھی ہوئی سگرٹوں کے ٹوٹے چنتیں اور انھیں سلگا کر اپنے ہونٹوں سے لگاتیں۔ دوسری طرف ساحر صاحب اس پیالی کو دھونے کی کسی کو اجازت نہ دیتے جس میں امرتا نے ان کے گھر پر چائے پی ہوتی۔ وہ اس جھوٹھی پیالی کو بطور یادگار سجا کر رکھتے۔ لیکن امرتا کی آمادگی کے باوجود انھوں نے ان سے شادی نہیں کی۔ امرتا سمجھدار ہونے کے باوجود اپنے عشق کی ناکامی کے لئے خود کو ساحر کی نظر میں "زیادہ ہی خوبصورت" ہونے کو ذمہ دار ٹھہراتی رہیں۔ پھر سدھا ملہوترا سے ان کا چکّر چلا اور خوب چلا۔ ساحر نے سدھا کو فلم انڈسٹڑی میں پروموٹ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اور یہ سب کرنے کے بعد "چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں" کہہ کر کنارہ کش ہو گئے۔ زندگی سے انھیں جو کچھ ملا تھا اسے لوٹانے کا ان کا یہ طریقہ نرالا تھا۔ فلموں کے نہایت کامیاب گیت کار بن جانے اور معاشی طور پر آسودہ حال ہو جانے کے بعد ساحر میں بد دماغی کی حد تک رعونت پیدا ہو گئی تھی۔ انھوں نے شرط رکھ دی کہ وہ کسی دھن پر گیت نہیں لکھیں گے بلکہ ان کے گیت پر دھن بنائی جائے۔ انھوں نے اپنے محسن ایس ڈی برمن سے مطالبہ کیا کہ وہ ہارمونیم لے کر ان کے گھر آئیں اور دھن بنائیں۔ برمن بہت بڑے موسیقار تھے ان کو اپنی یہ اہانت برداشت نہیں ہوئی اور "پیاسا" اس جوڑی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان کو گیت کا معاوضہ لتا منگیشکر سے ایک روپیہ زیادہ دیا جاے جو اک نامعقول شرط تھی۔ انھوں بہرحال اک معقول مطالبہ بھی کیا کہ وودھ بھارتی پر نشر کئے جانے والے گانوں میں گیت کار کے نام کا بھی اعلان کیا جائے۔ یہ مطالبہ منظور ہوا۔ ساحر نے بیشمار ہٹ گانے لکھے۔ ان کو 1964 اور 1977 میں بہترین گیت کار کا فلم فیر ایوارڈ ملا۔
ساحر نے جتنے تجربات شاعری میں کئے وہ دوسروں نے کم ہی کئے ہوں گے۔ انھوں نے سیاسی شاعری کی ہے،رومانی شاعری کی ہے،نفسیاتی شاعری کی ہے اور انقلابی شاعری کی ہے جس میں کسانوں اور مزدوروں کی بغاوت کا اعلان ہے۔ انھوں نے ایسی بھی شاعری کی ہے جو تخلیقی طور پر ساحری کے زمرہ میں آتی ہے۔ ساحر کی شاعری، بالخصوص نظموں میں،ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات کا خاص اثر نظر آتا ہے۔ ان کے ذاتی تجربات اور احساسات نے انکی شاعری میں،دوسرے شعراء کے مقابلہ میں زیادہ سچّائی اور گداز پیدا کیا اور محبت کی آمیزش نے اسے آفاقیت عطا کی۔
ان کی ادبی خدما ت کے اعتراف میں انھیں 1971 میں پدم شری کے خطاب سے نوازا گیا۔ 1972 میں مہارازشر حکومت نے انھیں "جسٹس آف پیس" ایوارڈ دیا 1973 میں "آو کہ کوئی خواب بُنیں" کی کامیابی پر انھیں "سویت لینڈ نہرو ایوارڈ" اور مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ ملا۔ 1974 میں مہاراشٹر حکومت نے انھیں 'اسپشل ایکزیکیوٹیو مجسٹریٹ نامزد کیا۔ ان کی نظموں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ 8مارچ 2013ء کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر محکمہ ڈاک نے اک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ 1980 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets