aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آزاد نظم کو ایک نیا اسلوب ، نیا لہجہ اور نئی ہیئت عطا کرنے والوں میں ن۔ م ۔ راشد کا نام سر فہرست ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا۔زیر تبصرہ کتاب "لا انسان" ،ن م راشد کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ 1969 میں منظر عام پر آیا، راشد کے اپنے منفرد اسلوب کا اعلان لا۔ انسان کی نظمیں بین الاقوامی انسان کے انتشار اور امیدِ نو کی عکاس ہیں۔ راشد انسان کو ایک ایسا ہندسہ تصور کرتے ہیں جس کی قیمت معلوم نہیں ۔ زندگی میں تلاش کا عمل اسی قیمت کو معلوم کرنے کی تگ ودو ہے۔اس تگ و دو کا محرک عشق ہے۔ عشق کے مختلف رنگ کبھی انسانیت سے ، کبھی فطرت سے ، کبھی فن سے ،کبھی ذات سے اور کبھی جنسِ مقابل سے عشق کی صورت میں اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔ زندگی کی عظمت اور معنویت اسی جذبہ کی بدولت ہے۔ مجموعہ کے شروع میں راشد کے ساتھ ایک طویل مکالمہ شامل ہے جس سے ان کے فکر و فن پر روشنی پڑتی ہے۔
لفظوں کا مجسمہ ساز
"مجھے سب سے زیادہ غرض اپنے بعض افکار کے اظہار سے ہمیشہ رہی ہے اور ان کی رسالت (کمیو نکیشن) کو میں نےاہم جانا ہے۔میرے نزدیک شاعری محض اصوات یا الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ دوسروں کے افکار میں ہیجان پیدا کرنےکا نثر سے مؤثر تر ذریعہ ہے۔"، " اس دور میں شعر کی دنیا کچھ ایسی بدلی ہے کہ خود مجھے اپنی شاعری کسی شہر مدفون سے نکلے ہوئے آثار قدیمہ کی طرح قیمتی معلوم ہونے لگی ہے " ( ن۔م راشد)
ن م۔ راشد ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے دور کی روح کی ترجمانی کی بلکہ نئی نسل میں نیا شعور پیدا کر کے تخلیقی سطح پر نئےرویّوں کو متعین کرنے کا بھی کام کیا۔آزاد نظم کو عام کرنے میں ان کا نام سر فہرست ہے۔راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں اک طرز نو کی بنیاد رکھی۔وہ اردو کے ان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کی شاعری نہ تو محض زبان کی شاعری ہے اور نہ محض کیفیات کی۔ان کی شاعری فکر و دانش کی شاعری ہے۔وہ خود بھی سوچتے ہیں اور دوسروں کو بھی سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔اور ان کی سوچ کا دائرہ بہت وسیع ،بین الاقوامی اور آفاقی ہے۔ وہ مذہبی،جغرافیائی،لسانی اور دوسری حدبندیوں کو توڑتے ہوئے اک ایسے عالمی انسان کے قصیدہ خواں ہیں جو اک نیا مثالی انسان ہے جسے وہ" آدم نو"یا نیا آدمی کہتے ہیں یہ ایسا انسان ہے جس کے ظاہر و باطن میں مکمل ہم آہنگی ہے اور جو دنیا میں حاکم ہے نہ محکوم ۔۔۔ ایسے انسان کا خواب راشد کی فکر و دانش کا خاص حوالہ ہے۔ راشد کا شعری مزاج رومی، اقبال،دانتے اور ملٹن جیسے شعرا سے ملتا ہے جو اک خاص سطح سے نیچے نہیں اترتے کیونکہ وہ جن مسائل اور موضوعات سے دوچار ہیں وہ ان عمومی مسائل اور کیفیات سے مختلف ہیں جو غنائی شاعری میں تنوّع لوچ اور لچک پیدا کرتے ہیں ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے اک دانشورانہ مزاج کی ضرورت ہے اور اس لحاظ سے وہ عوام کے نہیں بلکہ خواص کے شاعر ہیں۔
ن ۔م راشد یکم اگست 1910 کو پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے قصبے اکال گڑھ (موجودہ علی پور چٹھ) کے اک خوشحال گھرانے مین پیدا ہوے ان کے والد کا نام راجہ فضل الہی چشتی تھا جو ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکلولز تھے۔انھوں نے اسی قصبہ کے گورنمنٹ اسکول سے 1926 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا دادا جو پیشہ سے ڈاکٹر اور سول/ملٹری سرجن تھے اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے اور والد بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔راشد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا ۔سات آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے پہلی نظم" انسپکٹر اور مکھیاں" لکھی۔ اس نظم میں اس انسپکٹر کا خاکہ اڑایا گیا تھاجو ان کے اسکول کے معائنہ کے لئے آیا تھا اور جس کے سر پر مکھیوں کے اک جھنڈ نے یلغار کر دی تھی اوروہ ان کو دور کرنے کے لئے اپنے سر پیٹھ اور گال پر چپتیں مار رہا تھا۔۔اس نظم کے لئے باپ نے ان کو ایک روپیہ انعام دیا،دادا بھی خوش ہوئے لیکن شاعری سے دور رہنے کی تاکید بھی کی۔شروع میں راشد نے کچھ حمدیں اور نعتیں بھی لکھیں جو گمنام رسالوں میں شائع ہوئیں۔راشد کے والد خود شعر کم کہتے تھے لیکن حافظ،سعدی غالب اور اقبال کے شیدائی تھے۔ان کی بدولت راشد کو اردو فارسی کے بڑے شاعروں کے کلام سے آگاہی ہوئی۔راشد اسکول کے زمانہ میں انگریزی کے شاعروں سے بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے ملٹن،ورڈسورتھ اور لانگ فیلو کی بعض نظموں کے ترجمے کئے اور اسکول کی ادبی محفلوں میں پڑھ کر انعام کے حقدار بنے۔
1926 میں راشد نے اعلی تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا جہاں انگریزی ادب،تاریخ ، فارسی اور اردو ان کے مضامین تھے ۔وہاں ان کو ان کے شعری مذاق کو دیکھتے ہوئے کالج کے رسالہ "بیکن" کا طالبعلم ایڈیٹر بنا دیا گیا۔اس زمانہ میں انھوں نے انگریزی میں کئی مضامین لکھے۔اس نوعمری میں بھی وہ خاصے تیز طرار تھے۔لائلپور سے اک رسالہ زمیندارہ گزٹ" نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر سے ان کی دوستی تھی۔اس کے کہنے پر اس رسالہ کی ادارت سنبھال لی اور دیہات سدھار پر کئی مضامین لکھے۔۔1928 میں انٹرمیڈئیٹ پاس کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا وہ کالج کے مشاعروں میں حصہ لینے لگے اور کالج کے رسالہ "راوی" کے اردو سیکشن کے ایڈیٹر بنا دئے گئے۔اس میں ان کی کئی نظمیں اور مزاحیہ مضامین شائع ہوئے۔جلد ہی ان تخلیقات "نگار" اور "ہمایوں' جیسے معیاری رسالوں میں شائع ہونے لگیں 1930 میں راشد نے بی۔اے پاس کرنے کے بعد اقتصادیات میں ایم۔اے کرنے کا فیصلہ کیا۔اور ساتھ ہی فرانسیسی کی شبانہ کلاسوں میں بھی شرکت کر کے ثانوی کے مساوی سند حاصل کر لی۔ساتھ ہی انھوں نے آئی سی ایس/پی سی ایس میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے ۔اردو کے پرچہ مٰیں ان کو سب سے کم نمبر ملے تھے۔۔اسی عرصہ میں انھوں نے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر ڈالا۔اس عرصہ میں ان کے مضامین "اردو شاعری پر غالب کا اثر" ،ظفر علی خاں کی شاعری" ،اور "امتیاز علی تاج کا ڈرامہ انار کلی"وغیرہ شائع ہوتے رہے۔اس میں ان کو ڈاکٹر دین محمد تاثیر کی رہنمائی حاصل تھی۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ مختلف مقامات پر رہے اور خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزارا 1934 میں تاجور نجیب آبادی کے رسالہ "شہکار" کی ادارت کی لیکن ایک سال بعد اس سے الگ ہو گئے۔پھر بیکاری سے تنگ آ کر ملتان کے کمشنر کے دفتر میں بطور کلرک ملازمت کر لی۔اسی زمانہ میں انھوں نے اپنی پہلی آزاد نظم "جرأت پرواز" لکھی لیکن قارئین کو جس نظم نے سب سے زیادہ چونکایا وہ "اتفاقات"تھی جو "ادبی دنیا"لاہور کے سالنامہ میں شائع ہوئی تھی۔۔1935 میں ان کی شادی ماموں زاد بہن سے کر دی گئی۔
جس زمانہ میں راشد ملتان میں کلرک تھے،وہ عنایت اللہ خان مشرقی کی خاکسار تحریک سے متاثر ہو گئے اور ملتان کے سالار بنا دئے گئے۔وہ اس تحریک کی ڈسپلن سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہوئے تھے اور ڈسپلن کی مثال قایم کرنے کے لئے اپنی اک خطا پر خود کو سرعام کوڑے بھی لگوائےتھے لیکن جلد ہی وہ تحریک کی آمریت سے دلبرداشتہ ہو کر خاموشی سے الگ ہو گئے۔۔اسی زمانےمیں انھوں نے الگزانڈرکوپرین کے ناول "مایا" کا ترجمہ بھی کیا جس کا معاوضہ پبلشر ڈکار گیا اور کتاب پر ان کا نام تک درج نہیں کیا۔
مئی 1939 میں ان کا تقرر آل انڈیا ریڈیو میں بطور نیوز ایڈیٹر ہوا اور اسی سال پروگرام اسسٹنٹ بنا دئے گئے پھر انھیں ڈائریکٹر آف پروگرام کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی۔1941 میں ان کا تبادلہ دہلی کر دیا گیا۔راشد خاصے دنیا دار اور ہوشمند آدمی تھے۔روایتی شاعروں جیسی درویشی یا لا اوبالی پن سے انھیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ کس سے کیا کام لینا ہے ،کس سے بنا کر رکھنی ہے اور کس پر اپنی افسری کی دھونس جمانی ہے۔ دہلی ریڈیو پر وہ اس پنجابی لابی میں شامل تھے جو مجاز اور اختر الایمان جیسے سادہ لوح شاعروں کی برطرفی کا سبب بنی تھی۔اپنی ان ہی طراریوں کی بدولت وہ 1942 میں فوج میں عارضی کمیشن حاصل کر کے سمندر پار چلے گئےاور پرو ان کی دنیاوی ترقی کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا۔1943 سے 1947 تک وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈایریکٹریٹ انڈیا کے تحت عراق ،ایران مصر سیلون(سری لنکا)وغیرہ میں رہے۔فوج کی مدت ملازمت کے خاتمہ پر وہ آل انڈیا ریڈیو میں واپس آ گئے اور لکھنؤ اسٹیشن کے ریجنل ڈائریکٹر بنا دئے گئے ۔ملک کی تقسیم کے بعد اسی عہدہ پر وہ ریڈیو پاکستان پشاور پر مامور کئے گئے ایک سال پشاور میں اور ڈیڑھ سال لاہور میں گزارا پھر 1949 میں ان کو ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بنا دیا گیا۔اس کے بعد 1950 سے 1951 تک پشاور اسٹیشن کے ریجنل دائریکٹر کے عہدہ پر کام کیا 1952 مین وہ اقوام متحدہ میں شامل ہوئے اور نیو یارک،جکارتہ،کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں کام کرتے رہے 1961 میں بیوی کے انتقال کے بعد انھوں نے 1963 میں دوسری شادی کر لی۔یہ ان سے عمر میں 20 سال چھوٹی، باپ کی طرف سے اطالوی اور ماں کی طرف سے انگریز اوراسکول میں ان کی بیٹی کی معلمہ تھیں شاعری کے علاوہ راشد کے دوسرے شوق،گھڑسواری،شطرنج،کشتی رانی تھے۔شراب نوشی کبھی کم اور کبھی زیادہ اس وقت تک چلتی رہی جب تک دل کے عارضہ کے نتیجہ میں ڈاکٹروں نے سختی سے منع نہیں کر دیا۔مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔راشد کا انتقال 1975 میں دل کی حرکت رک جانے سے انگلینڈ کے قصبہ چلٹنہم میں ہوا اور تدفین کہیں نہیں ہوئی کیونکہ ان کی مبینہ وصیت کے مطابق ان کی لاش کو سپرد آتش کیا جانا تھا۔پاکستان میں اس بات پر خاصی ناراضگی جتائی گئی تھی حتی کہ باقاعدہ طور پر تعزیتی جلسے بھی منعقد نہیں ہوئے۔
ن م راشد کے چار شعری مجموعے: ماورا( 1942)،ایران میں اجنبی (1955)،لا=انسان(1969) اور گماں کا ممکن (1977) شائع ہوئے۔ایران میں قیام کے دوران انھون نے 80 جدید فارسی شعرا کے کلام کا ترجمہ "جدید فارسی شاعر" کے نام سے مرتب کیا۔ان کے متعدد تنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوئے جن کو کتابی شکل نہیں ملی ہے۔فیض نے "نقش فریادی" کا دیباچہ راشد سے ہی لکھوایا تھا حالاں کہ راشد کبھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں رہے۔وہ حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھتے تھے۔
ن م راشد کبھی فیض یا مجاز کی طرح مقبول عام شاعر نہیں رہے اس کی وجہ یہ ہے کہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا جو امتزاج ہے وہ فکری اور جذباتی رجحانات کے تصادم،ردّعمل اورہم آہنگی کا اک مسلسل عمل ہے جس کو سمجھنے اور جذب کرنے کے لئے۔کوشش اور محنت کی ضرورت ہے۔ راشد کی شاعری زودفہم یا فوری طور پر ہیجان میں لانے والی چیز نہیں۔ان کی شاعری ہر اچھی اور بڑی شاعری کی طرح اپنے لئے اک جداگانہ تنقید کا مطالبہ کرتی ہے جو خود اس شاعری سے روشنی حاصل کرکے اس کے مطالعہ ،تفہیم اور تحسین کی راہ ہموار کرے۔راشد نے اپنی نظموں میں جس قسم کے داخلی آہنگ کی تخلیق کی ہےاس کے لئے آزاد نظم ہی زیادہ موزوں ذریعہ اظہار ہو سکتی تھی۔بقول آفتاب احمد راشد شاعری میں لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں وہ نظمیں نہیں کہتے سانچوں میں ڈھلے مجسمے تیار کرتے ہیں۔ اپنی نظموں کی تعمیر و تشکیل میں ،ان کی تراش خراش میں، راشد جس احتیاط اور سلیقے سے کام لیتے ہیں اس سے ان کے احساس ہیئت کا اندازہ ہوتا ہے ان کے یہاں تجربات ،جو داخلی ربط میں منسلک ہو کر ظاہر ہوتے ہیں،ان کی ترتیب میں اک ارتقائے خیال نظر آتا ہے،ہر تفصیل اک معیّن مقصد پوری کرتی ہے اور اس طرح ،گویا،اک کُل کے جزو کی حیثیت رکھتی ہے ۔راشد کی نظمیں صحیح معنوں میں نظمیں ہوتی ہیں۔۔۔اپنے داخلی ربط کی وجہ سے بھی اور اپنی خارجی تنظیم کی وجہ سے بھی۔
اردو کی جدید نظم ہیئت کے اظہار کے نئے زاویوں رویّوں اورزبان و بیان کے تجربوں کے لئے ہمیشہ راشد کی مرہون منت رہے گی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets