aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سیماب اکبرآبادی کا شمار ان خوش نصیب شعرا میں ہوتا ہے جنہیں گزرتے وقت کے ساتھ فراموش نہیں کیا گیا۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مختلف اصناف سخن میں فکری و فنی التزام کے ساتھ کامیاب اور صحت مند تجربے کرکے مقبولیت حاصل کی۔ زیر نظر مجموعہ میں ان کی وہ غیر مطبوعہ غزلیں شامل کی گئی ہیں جو ۴۳ ۱۹ء سے ۵۰ ۱۹ء کے دوران کہی گئیں ۔ اس عرصے میں جو غزلیں جس سال کہی گئیں اسے غزل شروع ہونے کے پہلے ہی لکھ دیا گیا ہے، اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کس سال انہوں نے کون کون سی کتنی غزلیں کہیں۔ یہ تمام غزلیں ان کے انتقال کے تقریبا تین دہائی بعد کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ اس میں ان کی زندگی کے بالکل آخری ایام کی دو غزلیں بھی شامل ہیں جو انہوں نے اپنے زمانہ علالت کے دوران کہی تھی۔ ان کے متعدد دیوان چھپ کر زبان زد عام و خاص ہیں اور اب یہ مجموعہ قارئین کو ذہنی تازگی کا سامان فراہم کرے گا۔
Seemab is considered amongst one of the foremost masters of Urdu poetry. His father, Maulana Mohammad Hussain Siddiqui was a highly educated executive. His father passed away while he was still in college. He left college and got a job in Railways in Kanpur. Seemab started writing poetry during his school days. He became a disciple of Dagh in 1898 and travelled to Ajmer for work after relinquishing his job. In 1921 Seemab founded an institution “ Qasr-ul-Adab” to train new poets. He had also translated the Quran and the persian masnavi of Maulana Rume in Urdu. His first divan was published from Agra in 1936. He came to Pakistan after partition and passed away in Karachi on 31st Jan 1951.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free