aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"منٹو میرا دشمن" اوپندر ناتھ اشک کا لکھا ہوا منٹو کا خاکہ ہے،اس خاکے میں اشک نے منٹو کی شخصیت کو نہایت البیلے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے،اس خاکہ میں منٹو کی دہلی ریڈیو پر گزری ہوئی زندگی کی پوری روداد ہے، اس زمانے کی پوری تاریخ اور اس دور میں ریڈیو سے وابستہ بڑے بڑے ادیبوں کے کردار اور کارناموں کا تذکرہ ہے ۔اوپندر ناتھ اشک نے اپنی اس کتاب میں بتایا ہے کہ اُن کی منٹو سے دوستی بھی رہی اور دشمنی بھی،اور منٹو کے دنیا سےرخصت ہوتے ہی کس طرح اُن حضرات کے دلوں میں منٹو کے لیے محبت کا جذبہ ابھر آیا جنھوں نے منٹو پر اپنے دروازےبندکررکھےتھے۔ پاکستان ریڈیو نے منٹو کی تحریریں نشر کرنی بند کر دی تھیں۔ اس کتاب کے پہلے صفحہ پہ انھوں نے لکھا ہے:"اُن عقلمندوں کے نام جنھوں نے اس مقالے کو منٹو کے خلاف سمجھا۔"
اوپندر ناتھ اشکؔ پریم چند کے نامور معاصرین میں سے ایک ہیں اور پریم چند سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ ان کے افسانوں پر ایک لمبے عرصے تک ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔ پریم چند کے افسانوں میں بھی یہی صورت تھی۔ مگر وہ آخر خار اس سے باہر آئے لیکن اشکؔ ایک طویل عرصے تک اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ اپنے ملک کی معاشرت پر وہ گہری نظر ڈالتے ہیں اور اس کی برائیوں پر ان کی نظر جم کر رہ جاتی ہے اور ان کے اصلاحی افسانے وجود میں آتے ہیں۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست بھی داخل ہے لیکن یہاں بھی انداز اخلاقی اور اصلاحی ہے۔
اشکؔ نے ایک طویل مدت تک اپنے تمام تر وقت کو افسانہ نگاری پر صرف کیا۔ اس سے فن پر ان کی گرفت مضبوط ہوگئی اور زبان میں زیادہ روانی آگئی۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی منفرد اسلوب نہیں اور اردو افسانے پر وہ کوئی گہرا نقش نہیں چھوڑ سکے لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اپنے زرخیز قلم سے انہوں نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں، ڈاچی، کونپل، قفس، ناسور وغیرہ اور ان مجموعوں کے بیشتر افسانوں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا گیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets