aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خلیق الزماں نصرت(حال مقیم بھیونڈی) 2فروری1952ء کو سندرپور ضلع دربھنگہ ،بہار میں ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ گائوں سے متصل جنتا ہائی اسکول سے1969ء میں میٹرک کیا۔ آپ کےوالد ٹاٹا اسٹیل جمشید پورمیں ملازمت کرتے تھے اس لیےوہیں کریم سٹی کالج سے بی کام کیا۔اس کے بعد ان کے بھائی شمس الزماں نےبھیونڈی بلا لیا۔یہاں پر انہو ں نےاکائونٹ سیکھا اورپرائیویٹ طورپر کام کرنےلگے۔ مہاراشٹرا حکومت کےایک تعلیمی انسٹی ٹیوٹ سے Diploma in co-Operation بھی کرلیا۔اس کے فوراً بعد بھیونڈی میں ہی ممبئی مرکنٹائل بینک میں نوکری مل گئی۔ جہاں بحیثیت اکائونٹینٹ ۳۲سال تک ملازمت کرنےکےبعد2012ء میں اکائونٹینٹ افسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔
چونکہ نصرت صاحب کا تعلق ادبی گھرانے سے رہا اس لیے بچپن سے ہی اردو ادب سے بڑاگہرا لگائو رہا۔آپ کےپردادا ماسٹرالہٰی بخش برٹش حکومت میں اسٹیشن ماسٹر تھے جن کو انگریزی کےعلاوہ عربی ، اردو اورفارسی میں بھی بڑی مہارت تھی ،جو دادا مولوی خدا بخش کو بھی وراثت میں ملی اورآپ نے اس وراثت کو برقرار رکھا۔آپ کےدادا کا شماراس وقت کے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ آپ کی کئی تنقیدی اورتحقیقی کتابیں منظر عام پرآئیں جن میں ’برمحل اشعار اوران کےماخذ‘ اور’مشہور اشعار اورگمنام شاعر ‘بہت مقبول ہوئیں جن کی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی بھی ہوئی۔ ادبی خدمات کی وجہ سے اترپردیش،بہار اور مہاراشٹرا کی اردو اکادمیوں سے کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔
15سال کی عمر سے ہی نصرت صاحب کےاندرشعرو شاعری کا ذوق پیدا ہونےلگا تھا۔ مشہور عالم دین مولانا احمد رضا بریلویؒ سے نصرت صاحب کو بڑی عقیدت تھی۔ مولانا احمد رضا کےنعتیہ دیوان حدائق بخشش کا گہرا مطالعہ کیا،شایدیہی وجہ رہی ہوگی کہ نصرت صاحب نے شاعری کی ابتدا نعت سے کی۔پہلی بار اسکول کےجلسے میں جب انہوں نے نعت سنائی تھی تو کانپ رہے تھے۔ساتھ میں بیٹھےآپ کے استاد مہر شکروی نے ان کو حوصلہ دیا۔ نصرت صاحب کی پہلی غزل1969ءمیں چھپی۔
بھیونڈی آنےکےبعدسے نصرت صاحب کی اصل ادبی زندگی کی شروعات ہوئی اورآج ادبی دنیا میں وہ جس حیثیت سے جانے جاتےہیں وہ کسی سےمخفی نہیں ۔بچپن سے شعروادب کی دلچسپی کی وجہ سے نصرت صاحب ادبی لوگوں سے ہی رابطے میں رہے۔اورجن سے ملتے ان سے بڑی گہری دوستی کرلیتے تھے۔اس سےان کے اعلیٰ ذوق کا پتہ چلتاتھا۔ بھیونڈی میں شروعاتی دنوں میں ایک چھوٹے سےجھونپڑےمیں رہتے تھے،جہاں ادب کی شمع خوب روشن کی،چھوٹے سےجھونپڑے کو شاعروں اورادیبوں کی آماجگاہ بنادیا،یہ نصرت صاحب کا ادبی ذوق اوراردو سےمحبت ہی تھی کہ بڑے بڑے شعرا اس جھونپڑے میں آنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ابتدائی ایام میں شعروشاعری کی اصلاح مہر شکروی سے لیتے رہے۔ شاعری جب مزید پختگی آنےلگی تو مہرشکروی کےمشورے پر عبدالرحمان کنگلے فیضی نظام پوری سے اصلاح لینے لگے۔ مشاعرے میں بھی شرکت کرتے رہے۔قلمی سفر ماہنامہ پیام تعلیم سے شروع ہوا تودھیرے دھیرےاردو کے ناموراخبارات اوررسائل میں ان کے اشعار اورمضامین تواتر کےساتھ شائع ہونے لگے۔بینک میں نوکری ملنے کےبعدبھی نصرت صاحب کاادبی سفر جاری رہا۔
تحقیقی کاموں میں نصرت صاحب نےدو کام بڑےنمایاں انجام دیے ۔عام بول چال میں عموماًایسے اشعار جو زبان پرآجاتےہیں ان اشعار کو یکجا کیا اور ’برمحل اشعار اوران کےماخذ‘ کی شکل میں منظر عام پر لائے،دوسرے یہ کہ وہ اشعار جو مشہور تو بہت ہیں لیکن ان کے خالق شعرا کاپتہ نہیں یا پھران اشعار کو کسی دوسرے شاعر سےمنسوب کیاگیا ،ان کی نشاندہی کی اوراصل شاعر کاپتہ لگایااور’ مشہوراشعار گمنام شاعر ‘کےنام سے کتاب منظرعام پرآئی جس کی ادبی دنیامیں بڑی پذیرائی ہوئی۔ مہر شکروی کےعلاوہ نصرت صاحب جن کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیںان میں زکی انور، منظر شہاب، ظفرالاسلام، فیضی نظام پوری اورحضرت شاداں فاروقی ہیں۔ اس کے علاوہ عصرحاضرکےشعرا سےبھی خوب استفادہ کیا۔بھیونڈی میں مستقل طور پرسکونت اختیار کرنے کےبعدنصرت صاحب کے ادبی سفر کا جو سلسلہ شروع ہواوہ آج تک رکانہیں ۔اسی کےتحت مختلف سمیناروں، مشاعروں اوردیگر ادبی نشستوںمیں حصہ لیتے رہے۔1980ء سے’ تخلیق نو‘کےنام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکالنا شروع کیا،جو خالص ادبی تھا،جس میں برصغیر کےنامور قلمکاروں کی تخلیقات چھپتیں، بدقسمتی سے کچھ دنوں بعد یہ رسالہ بندہوگیا۔اسی دوران دربھنگہ سے نکلنے والے رسالے ’’آواز نو ‘ سے منسلک ہوگئے، نصرت صاحب کی محنت اورلگن سے اس کی مقبولیت پورےملک میں ہوگئی۔ کالج کےزمانہ میں ہی وہ شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوچکے تھے۔ یہ بات کم شاعروں میں دیکھی گئی ہے۔ا سی زمانے میں انہوں نے اپنےکالج کا آل انڈیا مشاعرہ بھی پڑھا تھااور ایک آل انڈیا مشاعرہ بھی کروایاتھا۔ کریم سٹی کالج کا جب تحریری مقابلہ ہوا تو انہوں نےپانچ مضامین لکھے،پانچوں میں انعامات ملے۔ ایک سرٹیفکیٹ بھی ملا جو آج بھی ان کےپاس موجودہے۔ اسی وقت سے آج تک شعر وادب سے جڑے رہے۔ ان کی دیوانگی کا یہ عالم تھاکہ کالج کے زمانے میں رات کو مشاعرہ پڑھ کر آتے تھےیاادبی محفلوں میں شامل ہوکرآتے تھے اور صبح امتحان دیتے تھے۔یہی سلسلہ بینک میں سروس کرنے کےبعد بھی جاری رہا۔ مگر یہاں ان کو اس عادت کو خیراباد کہنا پڑا۔ بینک میں ملازمت اورحساب وکتاب کےمعاملے میں بہت پابند تھے۔ ذراسی غلطی پرمیمومل جاتاہے۔1986ء سے اس دیوانگی کو کم کرکےنثر کی طرف دھیان دیا۔ا ورکبھی کبھی غزلیں بھی چھپوا لیاکرتے تھے۔ کالج میں کامرس کےطالب علم تھے ۔اپنے دوستوں کو بھی شاعر بنا دیا اورانہیں اردوسے اس قدرمحبت پیدا کردی کہ نصرت کےپانچ ساتھی جو ان کےمعترف تھے نے اردو میں کامرس کی کاپی لکھ دی جو یونیورسٹی کےضابطے کے خلاف تھا۔انہیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ انہیں فیل کردیاجائےگایاکم نمبردے دیےجائیں گے۔ اللہ کا کرم تھاکہ یہ چھ ذہین طلبہ کم نمبر ملنے کےباوجود سبھی بینک کےملازم ہوئے۔
تصنیفات:
نصرت صاحب کی اب تک 12کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔جن میں شعوری رجحانات( تنقید ) ،آخری گھڑے کا پانی( تنقید )،شعرائے بھیونڈی(تنقید وتذکرہ)،برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ، شعرائے مہاراشٹرا (ممبئی اور مضافات ) 2جلدیں ،شعرائے مالیگائوں ، آب مقطر (تنقید)،مشہوراشعار گمنام شاعر (اردواورہندی) ہیں جن کی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔تیار مسودہ میں برمحل اشعار دوسری جلد ، استفادہ سرقہ و توارد ، تذکرہ ماہ و سال ،زیر زبر پیش ۔
اعزازات :
اب تک مہاراشٹر اور بہار اردو اکیڈمی سے دو اوراترپردیش اردو اکیڈمی سےایک ایوارڈ مل چکا ہے۔اس کےعلاوہ ممبئی اورمضافات میں ادبی سرگرمیوں،کانفرنسوں ،سمیناروں اورمشاعروں میں بحیثیت صدراور مہمان خصوصی مدعو کیے جاتے ہیں،ان پروگراموں میں بھی موصوف کو متعددا یوارڈ مل چکےہیں۔
خلیق الزماں نصرتؔ صاحب اس وقت بزم مخطوطات بھیونڈی اور معصوم ایجوکیشنل سوسائٹی کےصدر ہیں۔ممبئی یونیورسٹی میں ’شعرائے مہاراشٹرا ‘ کی رسم اجرا کےموقع پر معروف ناقد پروفیسر ڈاکٹر مجاہد حسین نےنصرت صاحب کو’ نازش مہاراشٹرا‘ کے خطاب سےنوازا تھا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free