aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میراجی کی اس کتاب کے بارے میں بھی سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس کی رسائی کم لوگوں تک ہوئی ہے ۔میراجی کی شاعری کے لوگ اس قدر گرویدہ ہوئے کہ ان کی نثر پیچھے چلی گئی۔ہم میراجی کے تبصروں پر مشتمل کتاب ’’اس نظم میں ‘‘بھی آپ تک پہنچاچکے ہیں ۔یہ دونوں کتابیں اجمل کمال نے ’آج کی کتابیں‘ سے چھاپی ہیں ہم اس کیلئے ان کے بھی شکر گزار ہیں ۔میراجی نے اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں بہت کم عمر پائی لیکن جس قدر مختلف اور متنوع جہتیں ان کے تخلیقی اور تنقیدی اظہار کی رہی ہیں اتنی ان کے عہد کے کسی اور شاعر کی نہیں ۔میراجی اردو کے ایک ایسےتخلیق کار تھے جن کے تخلیقی عمل کی پشت پر صرف نام نہاد مشاہدہ اور تجربہ شامل نہیں تھا بلکہ عالمی ادب،تہذہب اور تاریخ کے ایک کثیر مطالعے سے حاصل ہونے والی بصیرت موجود تھی۔’مشرق ومغرب کے نغمے‘کا مطالعہ میراجی کی اہمیت کو مزید روشن کرتا ہے ان کی نثر کی شفافیت اور تخلیقیت تنقید میں ایک عجیب قسم کی سرشاری کا سبب بنتی ہے۔سو آپ کتاب پڑھئے اور گفتگو کیجئے۔
میرا جی اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے علامتی شاعری کو نیا انداز اور فروغ دیا۔ ن م راشد کا ماننا تھا کہ میراجی محض شاعر نہیں بلکہ ایک ادبی مظہر تھے۔
میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ ان کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی۔ کشمیری نژادکے خاندان سے تعلق رکھنے والے میراجی نے علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ادبی دنیا کے معروف جریدے “ادبی دنیا” سے منسلک ہوئے، جہاں انہوں نے مضامین لکھے اور مشرق ومغرب کے شاعروں کے تراجم کئے۔
میراجی کی شاعری انسانی شعور اور تحْتُ الشّعُور کی کیفتیوں کو نئی زبان اور علامتوں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں اور مختلف تراجم شامل ہیں۔ 3 نومبر 1949 کو بمبئی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔