Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : غضنفر

ناشر : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

سن اشاعت : 2016

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : مثنوی

صفحات : 210

معاون : غضنفر

مثنوی کرب جاں
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

پچھلے چالیس پینتالیس سالوں میں جن تخلیق کاروں نے مختلف شعری و ادبی حوالوں سے اپنی پہچان بنائی اور اپنی انفرادیت کا سکٌہ جمایا ان میں غضنفر ایک اہم ،نمایاں اور معتبر نام ہے۔ افسانہ ، ناول ,ڈراما,داستان ,انشائیہ ,خاکہ غزل، نظم ,مثنوی ,تنقید، درسیات اور لسانیات کے موضوع پر تقریباٌ  ڈھائی درجن کتابوں کا اشاعت پذیر ہونا جہاں ان کے علمی اور تحقیقی دائرۂ کار کو دکھاتا ہے، وہیں میدانِ علم و ادب میں ان کے  مسلسل انہماک اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی غمازی بھی کرتا ہے۔
  غضنفر کی تحریروں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ انھیں بنے  بناۓ راستے پر چلنا پسند نہیں ۔ وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے جانے پہجانے راستوں کو اختیار نہیں کرتے  بلکہ اپنے ادبی سفر کو جاری رکھنے کے لیے اپنی راہ خود بناتے ہیں۔ اور دیکھا یہ گیا ہے کہ اس نئی ڈگر کی تلاش اور جدت طرازی کی مہم جوئی میں وہ اکثر کامیاب بھی ہوۓ ہیں۔ وہ اپنے لیے تلاش کی گئی روش کو اتنا روشن کر دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جاتی ہے ۔ فکشن ہو یا شاعری ۔تحقیق ہو یا تنقید,درسیات ہو یا لسانیات۔مثنوی ہو یا  داستان,  خاکہ ہو یا خود نوشت سوانح حیات یا شہرنامہ ,انشائیہ ہو کہ ڈراما ہر طرح کی تحریریں فکری ،فنی، موضوعاتی ,اسلوبیاتی یا  لسانی کسی نہ کسی نہج سے غضنفر کی قوت,اختراع, جدٌتِ طبع اور ان کے تجرباتی میلان کو سامنے لاتی ہیں اور لسانی و ادبی سانچوں کو نئے رنگ و آہنگ سے ہم آمیز کرتی ہیں ۔ جانے پہچانے لفظوں سے وہ ایسا پیکر بناتے ہیں کہ  ان سے معانی ومفاہیم کے نئے رنگ و آہنگ پھوٹ پڑتے ہیں۔
 غضنفر کی ہر تحریر تخلیقی جاذبیت اور لسانی حلاوت سے پر ہوتی ہے ۔ ان کی شعری اور افسانوی تخلیقات میں تو تخلیقی چمک دمک ہوتی ہی ہے ،ان کی غیر تخلیقی نگارشات میں بھی زبان و بیان کی چاشنی  و شیرینی محسوس ہوتی ہے۔ غضنفر کی تحریروں سے لگتا ہے کہ خلوص وصداقت کے ساتھ ساتھ وہ ان میں اپنا خونِ جگر بھی شامل کر دیتے ہیں۔
       غضنفر کا پورا نام غضنفر علی ہے۔ بچپن میں غضنفر کو اشفاق احمد کے نام سے پکارا گیا مگر عقیقے کے مبارک موقعے پر ان کے ماموں کتاب الدین نے ان کا نام غضنفر علی رکھ دیا ۔یہی ان کا آفیشل نام بنا۔ غضنفر نے جب تخلیقی سرگرمیاں شروع کیں تو انھوں نے اپنے نام کے دونوں لفظوں کو مختصر کر کے جی۔ اے کیا اور آخر میں غضنفر جوڑ لیا  اس طرح وہ جی ۔ اے ۔ غضنفر ہو گئے ۔ چنانچہ ان کی ابتدائی تخلیقات اسی نام سے شائع ہوئیں۔ان کا پہلا ڈراما کوئلے سے ہیرا بھی جی۔ اے۔ غضنفر کے نام سے ہی چھپا۔ غضنفر جب ایم ۔اے میں آگئے تو کسی دوست کے مشورے سے جی ۔اے ۔ غضنفر کو انھوں نے غضنفر علی غضنفر کر لیا۔ ان کی پہلی تنقیدی کتاب "مشرقی معیارِ نقد" پر بھی یہی نام یعنی غضنفر علی غضنفر درج ہے۔ بعد میں جب رسالہ شب خون میں ان کی غزلیں چھپیں تو شمس الرحمان فاروقی نے اس ریمارک کے ساتھ "غضنفر علی غضنفر میں سے غضنفر علی ہٹا دیا کہ ایک غضنفر ہی کافی ہے۔" کو ان کے تین لفظی نام کو ایک لفظی ببا دیا۔۔ فاروقی صاحب کی یہ ترمیم غضنفر کو پسند آئی اور انھوں نے اسی نام کو اپنا قلمی نام اور تخلص بنا لیا۔ اس مختصر نام پر مشہور مزاح نگار  مجتبیٰ حسین نے ایک بڑا ہی خوبصورت کمینٹ  کیا ہے۔ غضنفر کے خاکوں کے دوسرے مجموعے'  روۓ خوش رنگ" کے فلیپ پر انھوں نے لکھا ہے :
  " غضنفر کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا انوکھاپن ہے۔ انوکھاپں ان کے نام میں بھی ہے‌ ۔میں نے اتنا مختصر نام آج تک نہیں سنا۔ یوں ہر ادیب یا شاعر کو اس کے چاہنے والے اس کے نام کے کسی جز سے ہی یاد رکھتے ہیں لیکن کتابوں پر شعرا اور ادیبوں کے پورے نام لکھے جاتے ہیں۔ غضنفر کے نام کا اختصار ان کی قامت کو مختصر نہیں 
کرتا بلکہ اس کو  اور بلند کرتاہے۔"
     غضنفر 9/ مارچ 1953ء کو ضلع گوپالگنج ،صوبہ بہار کے ایک گاؤں چوراؤں میں پیدا ہوۓ۔ ماں کا نام درودن خاتون اور والد کا نام عبدالمجیب تھا۔ماں گھریلو خاتون تھیں اور گاؤں ہی میں بچوں کے ساتھ رہتی تھیں اور والد روز گار کے سلسلے میں کلکتہ شہر میں رہا کرتے تھے۔ وہیں ان کا انتقال بھی ہوا۔


غضنفر کی ماں اپنے بیٹے کو بہت پڑھانا چاہتی تھیں اور بڑا آدمی بنانا چاہتی تھیں مگر یہ بھی چاہتی تھیں کہ وہ پہلے مذہبی تعلیم حاصل کر لیں تاکہ آخرت سنور جاۓ، پھر دنیاوی تعلیم کی طرف انھیں لگایا جاۓ۔ اسی لیے انھیں پہلے مدرسے میں داخلہ دلوایا گیا۔غضنفر دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے میں داخل ضرور ہوۓ اورانھیں دین سے خوب رغبت بھی رہی مگر مدرسے کا خشک اور سخت پابندیوں والا ماحول انھیں راس نہ آ سکا۔اور وہ بیزار ہو کر مدرسے فرار حاصل کرنے لگے۔کسی نہ کسی بہانے وہاں سے بھاگ کر وہ گھر آجاتے۔یا پڑھائی چھوڑ کر باہر کسی کھیل کود میں لگ جاتے۔ تنگ آ کر ماں نے انھیں مدرسے نکال کر گاؤں کے مکتب میں داخل کرا دیا ۔یہاں ان کا پڑھائی میں دل لگ گیا اور ایسا لگا کہ وہ اساتذہ کے چہیتے بن گئے۔
غضنفر نے اپنی ایک نظم " میاں تم ہی غضنفر ہو " میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ 
   غضنفر نے اس زمانے میں تو ماں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی مگر انھیں اس بات کا پچھتاوا عمر بھر رہا کہ وہ ماں کی آنکھوں کے سامنے وہ نہ کرسکے جو ان کی ماں چاہتی تھیں۔انھوں نے اپنے اس احساس  بھی کو اپنی ایک نظم میں ڈھالا  ہے 
    غضنفر کے والد عجیب و غریب خوبیوں کے مالک تھے جن پر غضنفر نے ایک بڑا ہی عمدہ اور دلچسپ خاکہ بھی لکھا ہے۔ ان کے والد روزگار کے سلسلے میں  کلکتہ شہر میں رہتے تھے۔ ان کا نام عبد المجیب تھا اور وہ مجید میاں کے نام سے مشہور تھے۔انھوں نے اپنی پوری زندگی کلکتے میں گزاری اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ وہ اپنے علاقے کے اسپائڈر مین بن گئے ۔جس کا تفصیلی تذکرہ " مجید میاں کا خون " میں موجود ہے۔ غضنفر نے اپنے والد پر ایک بہت ہی پر اثر نظم بھی تحریر کی ہے جس سے ایک باپ کے کردار کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ۔


مسلم معاشرتی رواج کے مطابق غضنفر کے تعلیمی سلسلے کا آغاز  جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا مدرسے میں مذہبی تعلیم سے ہوا لیکن مدرسے کے پابند اور خشک ماحول اور حافظ صاحبان کی بے رحم چھڑی کی مار نے جلد ہی انھیں مدرسے سے مکتب میں پہنچا دیا۔
   مکتب کا ماحول انھیں راس آ گیا۔گاوں کے مکتب کی کھلی فضا انھیں ایسی بھائی کہ پڑھائی میں بھی ان کے ذہن و دل انہماک سے جُڑ گئے۔ پہلی ہی کلاس میں انھوں نے ایسی شان دار کار کردگی کا مظاہرہ کیا کہ پہلی کے بعد سیدھے انھیں قطب چھپرہ ضلع سیوان کے ایک اپر پرائمری مکتب میں پانچویں جماعت میں داخلہ دلا دیا گیا اور وہاں بھی پانچویں کے امتحان میں وہ اچھی پوزیشن لانے میں کامیاب ہو گئے۔
    غضنفر اپنے ماموں کے قصبے قطب چھپرہ کے اسکول سے پانچویں پاس کر کے واپس اپنے علاقے کے مشہور اسکول سیمرا مڈل اسکول جس کے ہیڈ ماسٹر سیاسی رہنما اور سابق چیف منسٹر بہار،جناب عبدالغفور کے بڑے بھائی،ماسٹر اسلام صاحب تھے، میں داخل ہو گئے۔یہ وہی اسکول تھا جس میں غضنفر کے والد بھی زیرِ تعلیم رہ چکے تھے۔  اس اسکول میں غضنفر کوئی پوزیشن تو نہیں لا سکے مگر اپنی تخلیقی صلا حیتوں کی بدولت اسکول کے اچھے طالب علموں اور اساتذہ کی نظروں میں نمایاں رہے۔
   سیمرا سے مڈل پاس کرنے کے بعد غضنفر کا داخلہ وی۔ایم ۔ ایم ۔ایچ ۔ای اسکول گوپالگنج ،کی آٹھویں جماعت میں ہو گیا۔ انھیں سائنس گروپ میں داخلہ دلایا گیا کہ والد صاحب انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر جب آٹھویں جناعت کے سالانہ امتحان میں حساب کے سبجکٹ میں نمبر کم آۓ‌ تو غضنفر نے گھر والوں کو بنا بتاۓ ہی گروپ بدل لیا اور وہ سائنس سے آرٹس کی طرف چلے گئے۔
   یہ فیصلہ ان کے حق میں بہتر ثابت ہوا کہ نویں جماعت میں انھیں اول پوزیشن آگئی۔ ان کی یہ پوزیشن آگےبھی برقرار ہی۔ دوسال کے بعد انھوں نے اپنی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوے بتایا کہ انھوں نے سائنس چھوڑ کر آرٹس لے لیا تھا‌۔ گھر والوں کو دکھ تو ہوا مگر وہ ناراض نہ ہو سکے کہ غضنفر نے فرسٹ پوزیشن کی سامنے سرٹیفیکٹ جو رکھ دی تھی۔
   ہائرسیکنڈری بورڈ کے امتحان سے قبل غضنفر کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ۔اتنی زیادہ کہ انھیں بورڈ کے امتحان میں بیٹھنے سے منع کر دیا گیا مگر وہ نہیں مانے اور عزیز و اقارب کے دباؤ کے باوجود بنا تیاری کیےہی وہ امتحان میں اپئیر ہو گئے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ فیل تو ہونا ہی ہے مگر ان کے رزلٹ نے سب کو چونکا دیا ۔صرف /5 نمبر سے ان کی فرسٹ ڈویژن رہ گئی تھی اور کچھ سبجیکٹ میں تو انھیں ڈسٹنگشن بھی حاصل ہوا تھا۔
   یہ غضنفر کی ذہانت کا کمال تھا کہ ذہنی توازن کے بگڑ جانے کے باوجود وہ سلامت رہی اور ایسی صورتِ حال میں بھی غضنفر کو ایک شاندار کامیابی دلا کر انھیں دنیا کی نگاہ میں سّرخ رو کر دیا۔
  ہائر سکنڈری پاس کرنے کے بعد غضنفر نے گوپال گنج کالج گوپالگنج سے بی‌۔اے کیا اور 
اس کے بعد مظفر پور بہار یونی ورسٹی کے شعبہ ٔ اردو ایم۔اے سال اول میں داخلہ لے لیا مگر وہاں سے جب جے‌ پی ( جے پرکاش نارائن موومینٹ) میں یونی ورسٹی بند ہوگئی تو غضنفر اپنے ایک دوست نسیم عالم کی مدد سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں داخلہ پانے میں کامیاب ہو گئے‌۔
  علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے 1976 میں امتیاز کے ساتھ  ایم ۔اے کیا ۔ اور یونی ورسٹی میڈل بھی حاصل کیا۔اسی شعبے میں  رسرچ میں داخلہ لیا۔ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات پر تحقیقی مقالہ لکھا اور 1982 میں پی ایچ‌‌ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
  رسچ کے دوران جے۔آر‌۔ایف نکالااردو اکادمی اترپردیش کا بھی وظیفہ حاصل کیا اور شعبے میں عارضی لیکچرار بھی رہے۔
   دوران تعلیم اردو کے نامور اساتذہ،خورشیدالاسلام ،خلیل الرحمان اعظمی ،شہریار اور قاضی عبدالستار کی رہنمائی میں ان کی تخلیقی صلاحیتیں خوب پروان چڑھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شاعر اور افسانہ نگار دونوں حیثیتوں سے پہچانے جانے لگے۔
   انھیں اردوۓ معلیٰ کا سیکریٹری بھی نامزد کیا گیا اور علی گڑھ میگزین کے اڈوٹوریل بورڈ کے ممبران میں بھی شامل کیا گیا۔
     اسی دوران ان کا لیکچرر کے عہدے پر تقرر بھی ہوا مگر انھوں نے اپنی لیکچر شپ کو اپنے ایک دوست کے لیے قربان کر دیا۔یہ واقعہ تفصیل سے " دیکھ لی دنیا ہم نے  " میں درج ہے۔
     انھیں دنوں غضنفر نے یو۔ پی۔ایس۔ سی  دہلی میں لیکچرار کے عہدے کے لیے ایک انٹرویو دیا جس میں ان کا تقرر سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز میسور کی ذیلی شاخ  اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سنٹر سولن، ہماچل پردیش کی ایک گزٹیٹ پوسٹ لیکچرر کم جے۔ آر۔او پر ہو گیا اور وہ علی گڑھ سے سولن پہنچ گئے۔تقریباً اگیارہ بارہ سال تک سولن میں ملازمت کرنے کے


بعد سولن سے وہ لکھنو پہنچ ۔وہاں کے اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سنٹر کے پرنسپل کے عہدے پران کا تقرر ہو گیا۔لکھنؤ کی ملازمت کےدوران ان کا تقرر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ریڈر کے پوسٹ پر ہو گیا۔ اپنے ڈپارٹمینٹ سےلئین(طویل چھٹی ) لے کرشعبۂ اردو میں ریڈر کی پوسٹ انھوں نے جوائن کی اور  تین سال تک شعبۂ اردو میں  ریڈر کے عہدے پر فائز بھی رہے مگر کسی ٹیکنیکل مسئلےکے سبب انھیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے اپنے پیرینٹس ڈپارٹمینٹ, لکھنؤ جانا پڑا۔ اسی اشنا میں انھیں سندھی اکادمی بڑودرا کے ڈایریکٹر  کی پوسٹ پر بھیجا گیا۔ وہاں انھوں نے بہت سارے کارنامے انجام دیے۔ 
  انھیں ایک سال تک ریجنل لینگویجز پٹیالہ پنجاب کا بھی چارج سونپا گیا۔ وہاں بھی انھوں نے کچھ کارہاے نمایاں انجام دیے۔
   2008 میں ان کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسٹی کی اردو اساتذہ کی اکادمی  میں پروفیسر اور ڈائریکٹر کے عہدے پر ہوا۔ اس اکادمی کے تحت غضنفر نےایسی علمی و ادبی سرگرمیاں پیدا کیں اور اپنی ذیانت  اور تخلیقی صلاحیتوں سے اس اکادمی کو ایسا فعال اور نمایاں کیا کہ وہ غضنفر کی اکادمی کہلانے لگی۔ دس سال تک خدمت کرنے کے بعد 2018 میں وہیں سے غضنفر کی سبک دوشی ہوئی۔
 غضنفر کی شخصیت کیسی ہے۔ان کی شخصیت کن عناصر سے تیار ہوئی ہے ,وہ کن کن قدروں کے حامل ہیں ، یہ جاننے کے لیے ان کے استاد شہریار صاحب اور ان کے دوست علی احمد فاطمی کے یہ بیانات پڑھ لینا کا فی ہوگا۔شہریار لکھتے ہیں:
"غضنفر کو بیٹے کی طرح مانتا ہوں۔میں نے طے کر لیا تھا کہ سبکدوشی کے بعد شعبے کے معاملات میں۔ دلچسپی نہیں لوں گا مگر علی گڑھ میں ان کی تقرری میں تھوڑی سی پیروی بھی میں نے کی۔بعد میں چاہتا بھی تھا کہ ان کا مستقل ہو جاے لیکن نہیں ہو پایا۔بہر حال ان کے لیے میں تھوڑا سا آؤٹ آف وے بھی جا سکتا ہوں۔جس طرح میں اپنے بچوں کے لیے معروضی نہیں ہو سکتا ،اسی طرح غضنفر کے سلسلے میں بھی معروضی نہیں ہو سکتا۔طاقت بھی  ہیں میری غضنفر اور کمزوری بھی‌ ۔ ".
      فاطمی رقم طراز ہیں :
" اب ہر طرف غضنفر کے چرچے تھے‌ ایسی شہرت جس سے بڑے بڑوں کے مزاج بدل جاتے ہیں‌ اور ان پر غمناک نحوست اور المناک رعونت طاری ہو جاتی ہے لیکن میں نے دیکھا اور بہت قریب سے دیکھا کہ اس کا بھولاپن،معصومیت ،سادگی اسی طرح برقرار ہے  بلکہ اس نے دو قدم آگے بڑھ کر انسان دوستی اور روشن خیالی کا روپ بھی اختیار کر لیا تھا‌۔"
  ان اقتباسات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ غضنفر کی شخصیت  میں وہ خوبیاں موجود ہیں جو دوسروں کا دل جیت لیتی ہیں اور جن کی کشش اجنبی کو بھی اپنا بنا لیتی ہے۔
      غضنفر کی شخصیت کا ایک بڑا وصف توازن ہے۔ ان کی خود نوشت "دیکھ لی دنیا ہم" نے سے پتا چلتا ہےکہ انھوں نے اپنی زندگی کے پورے سفر میں توازن کو برقرار رکھا۔ان کی زندگی میں برے دن بھی آئے اور اچھے دن بھی۔ برے دنوں میں انھوں نے خود کو ٹوٹنے بکھرنے نہیں دیا اور اچھے دنوں میں اپنے  مزاج کو بہکنے اور اترانے سے بچاۓ  رکھا ۔دونوں صورتوں میں اپنے نفس کو مضبوطی سے  باندھے رکھا۔
     ایک اور خوبی ان کے مزاج کی سادگی ہے۔انھوں نے ایک سیدھی سادی زندگی بسر کی۔کوئی غرور نہیں پالا ۔افسری کے دنوں میں بھی وہ ہمیشہ ایک عام ادمی کی طرح پیش آتے رہے اور کسی کو بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک سنٹرل یونیورسٹی میں ڈائریکٹر کے اعلا عہدے پر فائز ہیں۔۔۔ ان کے رویے میں کسی طرح کی کوئی کجی نہیں آئی جیسا کہ عام طور پر بڑے افسروں میں آ جاتی ہے۔
     خوش مزاجی بھی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف ہے۔وہ ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں اور دل سے ہنستے ہیں۔ان گے قہقہے بڑے جان دار یوتے ہیں اور سننے والوں کے اندر جان ڈال دیتے ہیں۔
      غضنفر زندگی کے تئیں مثبت رویہ رکھتے ہیں۔وہ کبھی کسی کو کسی کام کے لیے نا نہیں بولتے۔ہر ایک کے کام آتے ہیں ۔ملازمت کے دوران انھوں نے درجنوں لوگوں کو ملازمت کے حصول میں ہر طرح کی مدد کی۔ بعض لوگوں کا تقرر تو اپنے قلم سے کیا۔
   آپنے سرکاری پروگراموں میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ شرکت کے مواقعے فراہم کرتے تھے۔اسکالرز بتاتے ہیں کہ غضنفر کے ہاتھوں کی سند آج بھی مختلف مواقعے ہر ان کے کام آتی ہے۔اور غضنفر کے لسانی و تدریسی پروگراموں میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
جن لوگوں نے غضنفر کو قریب سے دیکھا ہے انھیں معلوم ہے کہ غضنفر ایک سیدھےسادے ،سچے ,مخلص اور ملنسار انسان ہیں ،جنھوں نے بڑے عہدے پر ہونے اور اعلا مرتبہ پانے کے باوجود ایک عام آدمی کی زندگی بسر کی ۔
     میں نے سب سے پہلے غضنفرکو ان کے ناول " پانی" میں دیکھا تھا۔ آج  بھی جب کبھی پانی کا لفظ سنتی یا پڑھتی ہوں تو غضنفر کا ناول پانی نگاہوں کے سامنے لہریں لینے لگتا ہے۔  سطحِ آپ پر مگرمچھ ابھر آتے ہیں ان کی سرخ آلود زبانیں لپلپانے لگتی ہیں۔ آنکھوں سے ایک ایسی مخلوق جھانکنے لگتی ہے جو اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے پانی کے سوتوں پر پہرہ بٹھا دیتی ہے۔


پھر کھٹاک سے ، غضنفر کاشوراب ابھر آتا ہے۔وہ شوراب جس کے آب میں شورہ ملا ہوتا ہے اور جو اپنے زور سے ذہن و جسم کو گلا کر رکھ دیتا ہے۔ساتھ ہی مم  بھی جھلملا اٹھتا ہے جس میں بے نظیر کی مراقبے میں کشف کے عمل سے حاصل کی گئیں تدبیریں مگرمچھوں کے پیروں کے نیچے سے پانی کھینچ لیتی ہیں۔جلد ہی دریاؤں میں ناو کھیتا ہوا وہ مانجھی بھی پانی کی لہروں پر تیرتا ہوا آ دھمکتا ہے اور گنگا ،جمنا اور سرسوتی کے پانیوں کا رنگ اپنا روپ دکھانے لگتا ہے۔یہ ہیں غضنفر جو دریاؤں کو دیوتا بناتے ہیں اور ان دیوتاوں کو انسان میں بدل دیتے ہیں۔
    غضنفر کو پانی کا استعارہ شاید اس لیے پسند ہے کہ وہ خود بھی پانی کی طرح صاف شفاف،رواں اور متحرک ہیں۔
    غضنفر کا ان کی خود نوشت نما ناول یا ناول نما خود نوشت سے جو خاکہ تیار ہوتا ہے اس میں نمایاں پہلو غضنفر کی سادگی ہے جو خود کو چھپاتا نہیں بلکہ سینہ کھول کھول کر دکھاتا ہے۔ وہ انسان جو دوسروں کا خاکہ لکھتا ہے تو اس  میں شخصیت کے صرف روشن پہلوؤں کو دکھاتا ہے،وہی جب خود کو موضوع بناتا ہے تو اپنی ذات کے نہاں خانوں کی سیاہیاں بھی  سامنے رکھ دیتا ہے‌۔
جہاں تک غضنفر  کی فن کاری اور ان کی ادبی قدروقیمت کی بات ہے تو میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں اور اسے پھر دہراتی ہوں کہ غضنفر ایک ہمہ جہت فن کار ہیں۔ وہ تقریباً ادب کی تمام اصناف پر قادر ہیں اور انھیں اس حد تک قدرت حاصل ہے کہ جب وہ افسانہ لکھتے ہیں تو صرف افسانہ نگار لگتے ہیں ، ناول تحریر کرتے ہیں تو پوری طرح ناول نویس بن جاتے ہیں ، شاعری کرتے ہیں تو بس شاعر محسوس ہوتے ہیں، شاعری میں بھی جب مثنوی قلم بند کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف مثنوی کے شاعر ہیں، اسی طرح اپنے خاکوں میں خالص خاکہ نگار،اپنی تنقیدی تحریروں میں نقاد، درسی نگارشات میں ماہرِ درسیات،اپنے انشائیوں میں انشاپرداز اور خود نوشت میں صرف اور صرف خود نوشت نگار نظر آتے ہیں۔
    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غضنفر ہر طرح کے اظہار پر قادر ہیں اور انھوں نے تقریباً تمام اصنافِ ادب میں عمدہ اور قابلِ قدر نمونے پیش کیے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غضنفر نے صفحہً قرطاس پر جو قلمی کہکشاں سجائی ہے اس میں افسانے کی جھلملاہٹ ،ناول کی  جگمگاہٹ، غزل کی نرماہٹ ، نظم کی کھنکھناہٹ،  مثنوی کی مسکراہٹ، خاکے کی سرسراہٹ، انشائیے کی چلبلاہٹ،ڈرامے کی گڑگڑاہٹ، خود نوشت کی گرماہٹ، تنقید کی کھڑکھڑاہٹ سبھی کچھ ہے مگر ان کی اصل پہچان جس صنفِ ادب سے بنی وہ ناول ہے۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے مختلف رنگ و آہنگ کے نو ناول: پانی ، کینچلی، کہانی انکل،دویہ بانی، فسوں، وش منتھن، مم، شوراب اور مانجھی لکھے۔
ناول کے ساتھ ساتھ اور بھی جو کچھ غضنفر نے لکھا اور ان پر جتنا کچھ لکھا گیا مع ان کے اعزازات و انعامات کے ،ان سب کی ایک  مکمل فہرست  یہاں درج کی جا رہی ہے تاکہ غضنفر کے فکر و فن کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو سکے۔
 ملازمت کے دوران غضنفر مختلف انجمنوں ،تنظیموں اور اداروں مثلاً گیان پیٹھ، این ۔سی ۔ای۔ آر۔ٹی ۔این۔ٹی۔ایم ، این۔ٹی۔ایس ،سی آئی۔ایل ، اکادمی اسٹاف کالج جامعہ ملیہ اسلامیہ ، اکادمی براۓ فروغِ اردو اساتذہ مولانا آزاد یونی ورسٹی حیدر آباد، ان ،سی ۔پی یو ۔ ایل وغیرہ کے ممبر بھی رہے۔
غضنفر  ایک ہمہ جہت ادیب ہیں اور انھوں نے ادب کی تمام اصناف  میں عمدہ نمونے پیش کیے   اور شعر و ادب کی مختلف ہئیتوں میں تخلیقی و فنّی تجربے بھی کیے۔ جن کی ایک فہرست درج کی جا رہی ہے ۔
نو ناول  : پانی، کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، وش منتھن ، مم، شوراب اور مانجھی
دو افسانوی مجموعے : حیرت فروش اور پارکنگ ایریا
دو شعری مجموعے  :  آنکھ میں لکنت اور سخن غنچہ
چار خاکوں کے مجموعے   : سرخ رو ، روئے خوش رنگ اور خوش رنگ چہرے اور صورتیں
دو تنقیدی مجموعے :  مشرقی معیارِ نقد اورفکشن سے الگ
پانچ دریسی کتب : آسان اردو قواعد،  زبان و ادب کے تدریسی پہلو، تدریسِِ شعروشاعری ،لسانی کھیل اور جدید طریقۂ تدریس
ایک ڈرامہ :  کوئلے سے ہیرا
 تین مثنوی  :  مثنوی کربِ جاں ، مثنوی قمر نامہ اور مثنوی حرزِ جاں 
ایک حودنوشت : دیکھ لی دنیا ہم نے
اور آبیازہ: ناولوں کا کلیات
شایع ہو چکے ہیں۔
دویہ بانی اور کہانی انکل کا ہندی میں بھی ترجمہ چھپ چکا ہے۔
غضنفر ’اردو اسٹائل مینول‘کے ایڈیٹربھی رہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایک تدریسی مجلہ ”تدریس نامہ“ بھی نکالا جو اردو میں اپنی نوعیت کا منفرد و انوکھا رسالہ ہے ۔
    غضنفر کی تمام کتابوں کی فہرست مع سن اشاعت اور موضوع کے درج کی جا رہی ہے تاکہ غضنفر پر کام کرنے والوں نیز ان کے شیدائیوں کو آسانی ہو سکے:


1۔  کوئلے سے ہیرا  (ڈراما)   1971
2۔ مشرقی معیارنقد  (تنقید) 1978
3۔ پانی  (ناول)  1989
4۔ کینچلی (ناول)   1993
5۔ کہانی انکل  (ناول)   1997
6۔ دویہ بانی  (ناول)   2000 
7۔ زبان و ادب کے تدریسی پہلو  (تنقید)  2001 
8۔ فسوں (ناول)  2003
9۔ وش منتھن  (ناول)  2004
10۔ تدریسِ شعروشاعری  (تنقید)  2005
11۔ حیرت فروش   (افسانوی مجموعہ)  2005
12۔ مم  (ناول)   2007
13۔لسانی کھیل   (درس و تدریس) 2007
14۔ شوراب (ناول)  2009
15۔ سرخ رو  (خاکوں کا مجموعہ) 2010
16۔ مانجھی (ناول) 2012
17۔ فرہنگ مرکبات غالب (فرہنگ) 2012
18۔ فکشن سے الگ (تنقید) 2013
19۔ روئے خوش رنگ  (خاکوں کا مجموعہ) 2015
20۔ آنکھ میں لکنت (شعری مجموعہ) 2015
21۔  پارکنگ ایریا (افسانوی مجموعہ) 2016
22۔ کربِ جاں (مثنوی ) 2017
23۔ سخن غنچہ (بچّوں کا ادب)  2017 
24۔ جدید طریقہ ¿ تدریس (درس و تدریس) 2018
25۔ خوش رنگ چہرے (خاکوں کا مجموعہ) 2018
26۔ دیکھ لی دنیا ہم نے (خود نوشت) 2021
27- قمر نامہ (مثنوی دکن کی تہذیب و ثقافت پر) 2021
28- حرزِ جاں(مثنوی رسول الللہ  کی زندگی پر) 2022
29-صورتیں( خاکوں کا مجموعہ)
زیر اشاعت تصانیف :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-اردو محاورے
2۔خالی فریم(افسانوی مجموعہ)
3۔اردو سیکھیے(اردو کا نیا قاعدہ)
4۔فکشن فہمی( تنقیدی مضامین)
5۔میاں تم ہی غضنفر ہو(نظموں کا مجموعہ)
6۔احساس کی خوشبو(غزلوں کا مجموعہ)
7۔شبلی کے تنقیدی نظریات( تحقیقی مقالہ)
8-تہذہبی رنگ و آہنگ
انعامات :
بہار اردو اکادمی اور یو۔پی۔ اردو اکادمیوں کے فکشن ایوارڈز کے علاوہ  غضنفر کو مدھیہ پردیش گورنمنٹ کے اقبال سمّان سے بھی نوازاجا چکا ہے۔بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ اورشمیم نکہت ایوارڈ برائے فکشن 2023 سے نوازا گیا۔
کتابیں (ہندی میں)
دویہ بانی  (ناول)  نیرا سدن، الہ آباد
کہانی انکل (ناول) وانی پرکاشن،نئی دہلی
مصنف پرکتابیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ غضنفراردو فکشن کی ایک معتبر آواز، مرتبین: ڈاکٹرامحمد انور، آصف ابرار (2006) 
2۔ دویہ وانی ایک تنقیدی مطالعہ : مرتبہ: نشاط کوثر (2006) 
3۔ غضنفر کی ناول نگاری: ڈاکٹرصبوحی اسلم (2007) 
4۔غضنفر کا فکشن : سلمان عبد الصمد (2014) 
5۔ غضنفر کا ناول مانجھی: ایک تنقیدی مطالعہ: ڈاکٹر الفیہ نوری (2014) 
6۔ پانی سے مانجھی تک : شگفتہ یاسمین (2016)
7۔ غضنفر کی جہتیں: اکٹر زیبا ناز (2016)
8۔ مانجھی متن کے آئینے میں:
رحمت یونس(2016)
9۔ مثنوی کرب جاں کا تنقیدی مطالعہ : مرتبہ ڈاکٹر سیما صغیر(2017)
10-آبیاژہ( ناولوں کی کلیات ) مرتبہ : ڈاکٹر رمیشا قمر
 11-غضنفر شناسی : مرتبہ  : ڈاکٹر رمیشا قمر


غضنفر  پر تحقیقی مقالے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.......۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
1۔غضنفر کی ناول نگاری:صبوحی اسلم ،بہار یونیورسٹی،پٹنہ
2۔ غضنفر کی ناول نگاری:ظہور احمد خان ،کشمیر یونیورسٹی
3۔ غضنفرحیات و کارنامے،پرویز عالم ،ایل ایل متھلا یونیورسٹی
4۔ حیروت فروش کا تنقیدی مطالعہ،ذاکر فیضی،جے این یو،دہلی 
5۔ شوراب کا تنقیدی مطالعہ،عبد الباسط،جے این یو
6۔ مانجھی کاتنقیدی مطالعہ:حاجی بیگم ،سینٹرل یونیورسٹی حیدر آباد
7۔ غضنفر کی ناول نگاری کا تحقیقی و تنقیدی: شگفتہ یاسمین، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد
8۔غضنفر کے افسانوں میں سماجی وتہذیبی اثرات,فرح معید,للت نارائن میتھلایونیورسٹی دربھنگہ
9۔غضنفر کے خاکوں کاتنقیدی مطالعہ,ابرار حسین, سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد
10۔دویہ بانیکاتنقیدی مطالعہ,ہنس راج, شعبہ اردو جموں یونیورسٹی جموں۔
11۔کرب جاں کاتنقیدی مطالعہ,مانو حیدرآباد
12۔غضنفر کی حیات اور ادبی خدمات,محمد خلیل,ڈاکٹر محمد امان اللہ خان ,بی این منڈل یونیورسٹی مادھوپور بہار
13۔غضنفر کی فکشن نگاری کا فکری وفنی مطالعہ,سنبل صبیحہ,ڈاکٹر جانثار اسلم لکھنو یونیورسٹی لکھنو
14۔غضنفر کی خود نوشت دیکھ لی دنیا ہم نے کاتنقیدی مطالعہ,ڈمپلا دیوی,پروفیسر محمد ریاض احمد,شعبہ اردو جموں یونیورسٹی جموں
15۔ڈاکٹر غضنفر علی کی تصنیف مثنوی قمرنامہ کاتحقیقی وتنقیدی مطالعہ,محمدندیم,ڈاکٹر میر یوسف میر جموں وکشمیر مظفرآباد


غضنفر پرجاری تحقیقی مقالے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ غضنفر کی فکشن کائنات ایک مطالعہ:ذاکر حسین رضوی،ونوبھاوے یونیورسٹی جھارکھنڈ
2۔غضنفر کے ناولوں میں محکوم طبقات,سکینہ خواجہ,پروفیسر الطاف یوسف زئی,ہزارہ یونیورسٹی پاکستان
غضنفر کی یہ کتابیں اور ان پر لکھی گئیں تصانیف اور ان پر لکھے گئے تحقیقی مقالوں کی ہئیت و اصناف اور انکے مواد و موضوعات بتاتے ہیں کہ غضنفر کا تخلیقی رینج کتنا وسیع ہے۔ ان کے آرٹ کا کینوس کتنا بڑا ہے۔ ان کی جہتیں کتنی ہیں اور ان جہتوں میں کیسے کیسے رنگ و آہنگ موجود ہیں۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید
بولیے