aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو زبان و ادب میں خدائے سخن میر تقی میر محتاج تعارف نہیں۔ان كی استادی كا اعتراف غالب ،ناسخ اور ذوق جیسے قادرالكلام شعرا نے كیا ہے۔جس سے ان كی شاعرانہ حیثیت اور ان كے ادبی مرتبہ كا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔زیر نظر كتاب میركی حیات و شاعری كا مكمل احاطہ كرتی ہے۔اس كا مطالعہ قاری كو میر كے حالات زندگی،شاعری كی ابتدا، شاعرانہ خصوصیات اور وفات كی تفصیل سے روشناس كراتی ہے۔میر كی زندگی مسلسل تكالیف اور پریشانیوں سے گھری رہی۔اسی لیے ان كی شاعری میں بھی حزن وملال كی كیفیت نمایاں ہے۔انھیں اہل ادب "آہ كےشاعر"كے طور پر یاد كرتے ہیں۔ان كے کلام میں جو درد ہے وہ ان كی حقیقی زندگی كا عكس ہے۔میر نے جس دور میں آنكھ كھولی اس زمانے میں ہندوستان شورشوں و فتنوں كے دور سے گذررہاتھا۔جہاں ایك طرف مغلیہ سلطنت كا خاتمہ ہورہا تھا،وہیں دوسری طرف انگریزوں كی حكومت چاروں طرف پاوں پسار رہی تھی۔در اصل میر كی شاعری ان كی ذاتی درد وغم كے ساتھ ساتھ ملك كی بدلتی معاشی،اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں كی بھی عكاس ہے۔ان كے كلام میں دل اور دلی كے اجڑنے كا كرب بھی صاف نظر آتا ہے۔میر كواردو میں غزل كا سب سے بڑا شاعر تصور كیا جاتا ہے۔منفرد ،دلكش انداز بیاں،سہل ممتنع ان كے كلام كی اہم خصوصیات ہیں۔انھیں تشبیہات اور استعارات كے استعمال پر جو عبور حاصل تھا اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انھوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی كی ہے۔لیكن بنیادی طور پر وہ غزل كے شاعر ہیں۔تغزل كو جس كامیابی اور دلكشی اسلوب میں میر نے پیش كیا وہ ان ہی كا خاصہ ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free