aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
گیت ایک قدیم شعری صنف ہے اس کا اپنا ایک مخصوص مزاج اور آہنگ ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب "میرا جی کے گیت" میرا جی کی پہلی شعری تصنیف ہے جو 1943ء میں مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ تصنیف پچاس گیتوں پر مشتمل ہے جبکہ کتاب کے شروع میں ایک پیش لفظ اور "گیت کیسے بنتے ہیں؟" کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی شامل ہے جو میرا جی نے خود تحریر کیے تھے۔ اس دیباچے میں میرا جی نے ان داخلی عوامل کی نشاندی کی ہے جو اس کتاب کے بیشتر گیتوں کی تشکیل میں کار فرما رہے۔ کتاب میں شامل پچاس گیتوں میں سے آٹھ گیت مختلف ہندی شعراء مثلاً چنڈی داس، تکا رام، ودیاپتی اور رابندر ناتھ ٹھاکر کے کلام سے ترجمہ شدہ ہیں جبکہ باقی گیت میرا جی کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔
میرا جی اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے علامتی شاعری کو نیا انداز اور فروغ دیا۔ ن م راشد کا ماننا تھا کہ میراجی محض شاعر نہیں بلکہ ایک ادبی مظہر تھے۔
میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ ان کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی۔ کشمیری نژادکے خاندان سے تعلق رکھنے والے میراجی نے علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ادبی دنیا کے معروف جریدے “ادبی دنیا” سے منسلک ہوئے، جہاں انہوں نے مضامین لکھے اور مشرق ومغرب کے شاعروں کے تراجم کئے۔
میراجی کی شاعری انسانی شعور اور تحْتُ الشّعُور کی کیفتیوں کو نئی زبان اور علامتوں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں اور مختلف تراجم شامل ہیں۔ 3 نومبر 1949 کو بمبئی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔