aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ساجدہ زیدی صاحب طرز شاعرہ، ادیبہ، محقق، نقاد، ناول نگار، مترجم تھیں تھیں۔ آزاد نظم میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کے والد سید محمد مستحسن زیدی میرٹھ کے ایک ممتاز بیرسٹر تھے۔ ابھی ساجدہ زیدی کا بچپن والد کی جائیداد پر باغوں، کھیتوں اور فطرت کے مناظر کے درمیان گزر ہی رہا تھا کہ 1936 میں والد کا انتقال ہوگیا اور وہ اور ان کی چاروں بہنیں اپنی والدہ مختار فاطمہ زیدی کے ساتھ نانیہال میں پانی پت منتقل ہوگئیں، جو خواجہ الطاف حسین حالیؔ کا خاندان تھا۔ ساجدہ زیدی کی ابتدائی تعلیم میرٹھ اور پانی پت میں ہوئی مگر نویں جماعت کے بعد تمام ترتعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مکمل ہوئی۔ 1946 میں 19 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی مگر انہوں نے سلسلہ تعلیم جاری رکھا، اس دوران ان کےچاربچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔ انہوں نے بی۔ اے (1948) اور بی ایڈ (1950) میں فرسٹ کلاس میں کیا۔
1955 میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیمات میں پوسٹ گریجویٹ لکچرر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1964 میں تعیلم کی غرض سے بیرون ملک گئیں اور 1966 میں لندن یونیورسٹی سے تخلیق کی نفسیات میں اعزاز کے ساتھ ایم فل کی ریسرچ ڈگری حاصل کی۔ 1959 میں اے ایم یو کے شعبۂ تعلیم میں بحیثیت ریڈر اور 1976 میں بحیثیت پروفیسر ایجوکیشن تقرر ہوا۔ 1986 میں بحیثیت چیئرپرسن شعبۂ تعلیمات سبکدوش ہوئیں۔
اس دوران ساجدہ زیدی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں مثلاً یو جی سی اور این سی ای آر ٹی وغیرہ کے بہت سے اعزازی عہدوں پر فائز رہ کر ملک و قوم اور بالخصوص تعلیمات اور نفسیات اور اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے چکی ہیں۔ تعلیم، سیاحت اور دیگر کلچرل مقاصد کے تحت انگلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سویڈن، ہالینڈ، کینیا، آسٹریلیا، عرب اور سویت یونین کے مختلف ممالک کا سفر کر چکی ہیں۔ ملک کے طول وعرض اور بیرون ملک متعدد علمی و ادبی سیمیناروں میں شرکت، مقالات کی پیشکش اور صدارتی فرائض انجام دے چکی ہیں۔ چار شعری مجموعے، دوناول، ڈراموں کے دو مجموعے، ایک منظوم ڈراما، تنقیدی مضامین کا مجموعہ اور تعلیم اور انسانی نفسیات پر انگلش اور اردو میں چار ضخیم کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ متعدد ادبی اعزازات اور انعامات سے نوازی جاچکی ہیں۔ ساجدہ زیدی کی شاعری انگریزی، روسی، مراٹھی، اڑیا اور ہندی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ ساجدہ زیدی نے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، اسپینی وغیرہ ڈرموں کے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی خود نوشت سوانح ’’نوائے زندگی‘‘ ان کی بیٹی ڈٓاکٹر زویا زیدی نے مرتب کی جسے اردو اکادمی دہلی نے 2012 میں شائع کیا۔ ان کی چھوٹی بہن زاہدہ زیدی بھی مشہور شاعرہ اور ادیبہ تھیں۔
بیسویں صدی میں دنیا کے بہترین، قابل ستائش دانشوروں اور فنکاروں میں ساجدہ زیدی کا انتخاب ہوا، جس کا اندراج “Twentieth Century Admirable Achievers” میں ہوا۔ اس کے علاوہ “Twentieth Century Women Writers in India” میں بھی انتخاب ہوا، اور Anthology میں اندراج ہوا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free