aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اہل اردو ادب کے لیے نظم طباطبائی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔موصوف وہ صاحب قلم ہیں ۔جنھوں نے اردو کو نہایت متین اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ایسے اصول وضوابط وضع کئے ۔جس سے ہر قسم کے دقیق اور جدید سانئسی مضامین کو بآسانی تحریر کیا جاسکتا ہے۔نقد و نظر، شاعری ، نثرنگاری ،ترجمہ، عروض ،صنائع و بدائع ، غرض اردو ادب کا کوئی ایساشعبہ نہیں جس میں نظم صاحب کو مہارت نہ ہو۔ایک طرح سے آپ مجتہد جامع الشرائط تھے۔شاعری میں صرف دو تخلیقات دواوین کی صورت میں محفوظ ہیں۔ایک دیوان "قصائد اور منظومات "کا ہے جو "نظم طبا طبائی " کے نام سے موسوم ہے۔دوسرا دیوان "صوت تغزل" غزلوں پر مشتمل ہے۔پیش نظر ان کے وہ قصائد اور نظموں کا مجموعہ ہے ۔جو مختلف ادبی رسائل میں بار بار شائع ہوتی رہی ہیں۔جن کو عوام و خواص میں بے حد پسند کیا گیاہے۔جنھیں آج بھی لوگ پڑھنا چاہتے ہیں،لوگوں کی اسی دلچسپی کے پیش نظر اس کلام کو دیوان کی صورت میں یکجا کیا گیا ہے۔اس دیوان کو سید امیر حسن اور محترمہ قمر حسن صاحبہ نے مرتب کیا ہے۔
سید حیدر علی نام، نظمؔ تخلص، 1853ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگان اودھ کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ شاہ اودھ معزول کر کے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ کلکتہ کے مٹیا برج میں قیام رہا۔ وہاں شہزادوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک عالم سے خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کرنے کے بعد وظیفہ کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے اور ولی عہد کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ حسن کارکردگی کے صلے میں سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی اثنا میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا۔ ارباب اختیار نے نظمؔ کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خیال سے ادبی ناظر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کیں۔ ذمہ داری یہ کہ نظمؔ تراجم پر نظر ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔ 1933ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مرتے دم تک وہ اردو شعروادب کی خدمت کرتے رہے۔
نظمؔ نے اردو میں نئے انداز کی نظمیں لکھیں اور اس سے بڑھ کر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انگریزی نظموں کے انہوں نے ایسے دلکش ترجمے کیے کہ ان پر ترجموں کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ سب سے مشہور ترجمہ گرے کی نظم کا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مرگئے۔ نظمؔ نے مرثیے کا اردو میں ترجمہ کیا اور’گورغربیاں‘ نام دیا۔ اردو میں کوئی اور ترجمہ نہ اس پائے کا موجود ہے، نہ کسی ترجمے نے اتنی شہرت پائی۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؎
وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ دیرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
ان کی زبان سادہ ہے مگر اس سادگی میں غضب کی دلکشی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور استعمارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے اور ان میں جدت پیدا کی۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free