Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : گیان چند جین

ناشر : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

سن اشاعت : 1990

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : مقالات/مضامین

صفحات : 442

معاون : غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی

پرکھ اور پہچان
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

گیان چند جین کا وطن سیوہارہ، ضلع بجنور، یوپی ہے۔ یہ مذہبی اعتبار سے جین ہیں اور ان کی ذات اگروال۔ ان کے والد بحال سنگھ تھے۔ گیان چند نے اپنا نسب نامہ یوں درج کیا ہے:۔ ’’گیان چند بن بحال سنگھ بن بہاری لال بن پدم جین بن موہن لال بن منگنی رام بن سیتا رام‘‘ منگنی رام دھام پور س سوہارا منتقل ہوگئے تھے۔ گیان چند جین کے اپنے بیان کے مطابق ان کے پردادا حکیم پدم سنگھ فارسی کے عالم تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔ تخلص زیرک تھا۔ جن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے فارسی مخطوطات گیان چند جین کے گھر میں محفوظ ہیں۔

ان کی والدہ کا نام پاروتی تھا۔ وہ جین نہیں تھیں بلکہ سناتن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ جین بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اپنی ولادت کی تاریخ خود موصوف نے 19ستمبر 1923ء لکھی ہے۔ دوپہر بارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے۔ مسلم قدرت اسکول سوہارا سے انہوں نے آٹھویں درجے کا امتحان پاس کیا۔ مراد آباد سے 1939ء میں ہائی اسکول کیا۔ انٹرگورنمنٹ انٹرکالج، مرادآباد سے 1941ء میں کیا۔ انہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1943ء میں بی اے پاس کیا۔ ایم اے کے بعد اردو داستانیں ان کے ریسرچ کا موضوع رہا اور اسی موضوع پر ڈی فل کی ڈگری لی۔ انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں بھی ایم اے کیا۔ 1956ء میں آگرہ یونیورسٹی میں ڈی لٹ میں داخلہ لیا اور 1960ء میں ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ساگر یونیورسٹی سے لسانیات میں بھی درس لیا اور 1962ء میں کرناٹک یونیورسٹی بھاڑوار میں شامل ہو کر ایڈوانس لسانیات کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔

گیان چند جین کی شادی 1953ء میں سہارن پور میں ہوئی۔ ان کی بیگم کا نام ارملا ہے اور وہ سناتن دھرم سے تعلق رکھتی ہیں۔ گیان چند جین 1950ء میں حمیدیہ کالج بھوپال میں اردو کے لکچرر ہوئے اور اسی کالج میں پروفیسر بھی ہوئے۔ پھر وہ گورنمنٹ ڈگری کالج میسور کے پرنسپل ہوئے۔ 1965ء میں جموں کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہوئے۔ وہاں گیارہ سال ملازمت کرتے رہے۔ اس کے بعد 1976ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو ہوگئے۔ دسمبر 1970ء میں حیدر آباد کی سینٹرل یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہوئے۔

گیان چند جین اردو کے ایک نامور ادیب اور محقق رہے ہیں۔ ادبی طور پر بے حد فعال اور متحرک رہے۔ انہوں نے داستان اور مثنوی پر بطور خاص کام کیا ہے اور ان کی متعلقہ کتابیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ لسانیات سے ان کا شغف محتاج تعارف نہیں۔ تاریخ ادب اردو سے بھی ان کی دلچسپی رہی ہے اور انہوں نے فروغ اردو، دہلی کے لئے سیدہ جعفر کے ساتھ دکنی ادب کی تاریخ متعدد جلدوں میں قلمبند کی ہے۔

’’اردو کی نثری داستانیں‘‘ پہلے انجمن ترقی اردو پاکستان سے 1954ء میں شائع ہوئی۔ لیکن جین صاحب نے اس میں مزید تصحیح اور اضافے کئے جو 1969ء میں پاکستان ہی سے شائع ہوئی۔ گیان چند جین نے لکھا ہے کہ وہ اس کتاب پر مزید کام کر رہے ہیں۔ گویا یہ کتاب یوں تو سبھوں کی نظر میں ہے، وہ خود بھی اسے مزید مفید بنانے کے سلسلے میں کافی چوکس ہیں۔ ڈی لٹ کا مقالہ ’’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘‘ 1969ء میں شائع ہو چکا ہے۔ ’’تفسیر غالب‘‘ ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ دراصل اس میں غالب کے قلم زد کلام کی شرح پیش کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1972ء میں شائع ہوئی۔ لیکن کتاب پر تاریخ اشاعت 1971ء درج ہے۔ یہ اطلاع خود مصنف نے بہم پہنچائی ہے۔ غالب کے سلسلے میں ایک دوسری کتاب ’’رموز غالب‘‘ ہے۔ دراصل یہ گیان چند جین کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین غالب سے متعلق ہے۔ یہ کتاب 1976ء میں مکتبہ جامعہ سے شائع ہوچکی تھی۔ تحقیق و تنقید کا ایک مجموعہ ’’حقائق‘‘ کے نام سے 1978ء میں شائع ہوا۔ اس طور کا ایک دوسرا مجموعہ ’’ذکروفکر‘‘ بھی ہے۔ ایک ضخیم کتاب ’’عام لسانیات‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے قاضی عبدالودود پر ایک مفصل کتاب بہ عنوان ’’قاضی عبدالودود بحیثیت مرتب متن‘‘ قلمبند کی ہے۔ یہ کتاب ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دلّی سے شائع ہو چکی ہے۔

یہ انتھک محنت کرنے والے ایک ایسے ادیب ہیں جو ادبی حقائق بغیر کسی تعصب کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی محنت اور دل جمعی سے اردو کے کئی الجھے اور پیچیدہ مسائل حل ہوئے ہیں۔ یہ اپنی تحقیق میں بھی اپنے بیان کو کافی ترسیلی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

گیان چند جین کے مضامین میں بھی علم و تحقیق کی بصیرتیں ملتی ہیں۔ جین صاحب ہمارے ادبی سالاروں میں ایک ہیں جن کی رہنمائی میں تحقیق و تنقید مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ نیزلسانیاتی مطالعات کا شغف لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید
بولیے