aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
واجد علی شاہ نہایت رنگین مزاج حکمران تھا۔ وہ صرف اردو کا شاعر ہی نہیں تھا بلکہ اسے رقص و سرور کے رموز پر بھی کمال حاصل تھا۔ گانے ، بجانے ، ڈرامے ، شاعری ، راگ راگنی کا ماہر تھا۔ کتھک رقص کو اس نے از سر نو زندہ کیا تھا۔ رہس ، جو گیا ، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کو اس نے نہ صرف زندگی دی تھی بلکہ ان کے ماہرین کو بھی اس نے لکھنو میں جمع کیا تھا۔ اسے یہ رموز استاد باسط خاں ، پیارے خاں اور نصیر خاں نے سکھائے تھے۔ ان تمام چیزوں کی تربیت اور ارتقاءکے لیے اس نے لکھنو میں عالیشان قیصر باغ بارہ دری بنوائی جو آج بھی قائم ہے۔ اس نے خود کئی نئے راگ اور راگنیوں کی ایجاد کی۔ اتنا ہی نہیں اس نے تمام رموز پر الگ الگ کتابچے بھی لکھے تھے جن کی تعداد سو سے بھی زائد تھی۔زیر نظر کتاب بھی نواب واجد علی شاہ کے معاشقوں کی خود نوشت ،داستان ہے ، جس کو فارسی کے کسی نایاب نسخے سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ،یہ کتاب واجد علی شاہ کے واردات عشق و محطت سے تعلق رکھتی ہے ،نواب واجد علی شاہ آٹھ سال کی عمر سے لیکر 26 سال کی عمر تک جن واردات عشق اور ہجر و وصال کے واقعات سے دو چار ہوئے تھے ان کو ان اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
Wajid Ali Shah was the fifth King of Oudh and son of Amjad Ali Shah. Wajid was the tenth and last nawab of the state of Oudh in present day Uttar Pradesh in India. He ascended the throne of Oudh in 1847 and ruled for nine years. His kingdom, long protected by the British under treaty, was eventually annexed peacefully on 7 February 1856. The Nawab was exiled to Garden Reach in Metiabruz, then a suburb of Kolkata, where he lived out the rest of his life off a generous pension. Wajid was a poet, playwright, dancer and great patron of the arts. Although his pen-name was Qaisar, he used the pseudonym "Akhtarpiya" for his numerous compositions. Under this pen name, he wrote over forty works – poems, prose and Thumris. "Diwan-e-Akhtar", "Husn-e-Akhtar" contain his Ghazals.