aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ بانو قدسیہ کا مشہور ناول ہے ،جو 1981 میں شائع ہوا۔ اس ناول کی اشاعت کے بعد ہی بانو قدسیہ کو ادبی حلقوں میں پزیرائی ملی۔ یہ ناول معاشرتی طبقوں کے ٹکراو کو بہت ہی خوبصورستی سے بیان کرتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار سیمی شاہ اور اس کا ہم جماعت قیوم ہے جو ایک امیر زادی ہے جسے آفتاب نامی لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ ناول نفسیاتی پہلووں کے ساتھ ساتھ رزق حلال و حرام اور معاشرتی رویوں میں حلال و حرام کے ٹکراو پر مبنی ہے۔حلال و حرام سے مراد موت و زندگی ہے ۔اور زندگی سے مراد خواہشات کی دوڑ ہے۔ راجہ گدھ کی کہانی بھی کچھ اسی طرح ہے جہاں یک طرف زندگی / چاہت ہے اور درمیان مین انسان کھڑا اس کا رقص کرتا نظر آتا ہے اور آخر/ انجام میں موت۔ کبھی خود کشی کو پروان چڑھا کر ، کبھی نفسیاتی بیمایوں میں مبتلا کر کے اور کبھی بے حسی کا لباس پہناکر ان تمام عقل و شعور کے پیمانوں کو آگ میں جلا دیتی ہے اور بندگی کے مقصد سے کہیں دور لے جاتی ہے، جہاں کوئی راستہ اپنا نہیں ہوتا کوئی راہ روشن نہیں نظر آتی، بس پانی ہی پانی ہے اور ڈوبنا مقدر۔ جس طرح گدھ میں بے حسی اور بھوک کے ساتھ مردار کو کھانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ ہر صورت بھوک مٹانا چاہتا ہے ، وہ زندہ کی موت کا انتظار کرتا ہے اور مردار کو چیر پھاڑ کر کھا جاتاہے ، ا س کی محبت اس کا پیٹ ہے اور وہ اس محبت میں پاگلوں کی طرح پھرتا ہے کیوں کہ اس نے یہ سب انسان سے سیکھا ہے۔ کہ کس طرح نشان لگانا ہے اور کس طرح ہڈیوں سے گوشت الگ کرنا ہے اور اس کے بعد پیٹ اور دل دونوں کو سکون ہی سکون ۔ الغرض یہ ناول بہت ہی خوبصورت اور قابل مطالعہ ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free