Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : ملا وجہی

ایڈیٹر : مولوی عبدالحق

اشاعت : 001

ناشر : (انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن

مقام اشاعت : اورنگ آباد, انڈیا

سن اشاعت : 1932

زبان : Urdu

موضوعات : قصہ / داستان

ذیلی زمرہ جات : داستان

صفحات : 376

معاون : جامعہ ہمدردہلی

سب رس
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

ملاوجہیؔ دکن کے ان نامور شعراء میں سے ایک ہے جنہوں نے دکنی زبان کی تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور شعرگوئی میں اپنا ایک واضح مقام بنایا ہے۔ اس نے اس طرح زبان کی بنیادیں مضبوط کیں کہ تقریباً ڈھائی سو برس تک ان کی شاعری دکن کے ادبی حلقوں میں پسندیدگی اور قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی رہی۔ ملاوجہیؔ نے نہ صرف نظم میں بلکہ نثر میں بھی اپنے قلم کا زور دکھایا ہے۔

گولکنڈے کے سلطان ابراہیم قطب شاہ کے زمانے میں ملا وجہیؔ پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے آباد و اجداد خراسان سے دکن آئے تھے اور یہیں کے ہو رہے۔ یہ نیا وطن ان کو بہت پسند آیا چنانچہ وجہیؔ نے ایک جگہ کہا ہے:

دکن ہے نگینہ انگوٹھی ہے جگ
انگوٹھی کو حرمت نگینہ ہے لگ
دکن ملک کو دھن عجب ساج ہے
کہ سب ملک سر اور دکن تاج ہے

وجہیؔ کی تعلیم و تربیت قابل اساتذہ کے ہاتھوں ہوئی۔ جب ابراہیم قطب شاہ کے بعد محمد قلی قطب شاہ تخت نشین ہوا تو ملاوجہیؔ دربار میں باریاب ہوا اور اپنی قابلیت اور علمیت کے سبب اس نے ملک الشعراء کا درجہ پایا۔ اس دربار سے وابستہ دوسرے شعراء جیسے غواصیؔ وغیرہ اتنا اعزاز نہ پاسکے۔ واقعات میں درج ہے کہ ملاوجہیؔ نے اپنے مرتبہ پر ہر جگہ فخر ومباحات کی ہے اور ہم عصر شعراء کو اپنا خوشہ چیں گردانا ہے۔ ایک جگہ کہتا ہے۔

جتے شاعراں شاعر ہور آئیں گے
سو منج سے طرز شعر کا پائیں گے

لیکن وجہیؔ کی یہ خودستائی اس وقت ختم ہوگئی جب قلی قطب شاہ کی وفات ہوگئی اور محمد قطب شاہ تخت نشین ہوا۔ محمد قطب شاہ ایک متقی اور پرہیزگار سلطان تھا اور حضرت میر مومنؔ پیشوائے سلطنت کا معتقد تھا۔ وہ شعرو شاعری جیسے کاموں میں وقت نہیں لگاتا تھا بلکہ عبادات الٰہی میں مصروف رہتا تھا۔ اس کی دینداری کی ایک عظیم یادگار حیدرآباد کی مکہ مسجد ہے۔ اس کے عہد میں وجہیؔ کو تنگدستی اور گمنامی کی زندگی گزارنی پڑی۔ پھر محمد قطب شاہ کے بے وقت انتقال کے بعد جب عبداللہ قطب شاہ نے عنان حکومت سنبھالی تو وجہیؔ کے خزاں رسیدہ باغ میں پھر سے بہار آگئی۔ سلطان نے خود وجہیؔ کو طلب کیا اور عزت و مرتبہ سے سرفراز کیا۔

کتاب ’’سب رس‘‘ ملا وجہیؔ کا نثری کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں اخلاقیات اور تصوف کے مسائل کو قصے کی صورت میں نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان اخلاقی موضوعات پر بحث کی گئی ہے جو انسان کی صاف ستھری ذہنی اور سماجی زندگی میں نہایت ضروری ہیں۔ جن صفات سے انسان انسان کہلاتا ہے ان پر خوف کھل کر بحث کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جیسے انسان کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے جس کی عدم موجودگی میں اس کی حرکتیں حیوانوں سے بدتر ہوجاتی ہیں۔ وجہیؔ لکھتے ہیں:

’’عقل نور ہے۔ عقل کی دوڑ بہت دور ہے۔ عقل سے تو آدمی کہواتے۔ عقل ہے تو عقل سے خدا کو پاتے۔ عقل اچھے تو تمیز کرے۔ بھلا ہور برا جانے عقل اچھے تو آپس کو ہور دوسروں کو پچھانے۔ جتنی عقل اتنی بڑائی۔ عقل نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔

عقل کے نورتے سب جگ نے نور پایا ہے
جنے جو علم سیکیا سو عقل تے آیا ہے

انسانی کردار میں جو دوسری چیز سب سے اہم ہے وہ ہے صداقت پسندی چناںچہ سچائی کے بارے میں لکھتا ہے:

’’سچے پر ہنستے، مسخریاں کرتے، سچے کو اڑاتے، سچے پر بولاں دھرتے، سچے میں نئیں ہے جھوٹی بازی، سچے سوں خدا رسولؐ راضی، بعضے ناپاکاں پیغمبر کو بولتے تھے کہ یودوانا ہے، ساحر ہے، یہ بات چھپی نہیں ظاہر ہے۔ سچے کا دل پاک، جھوٹے کے دل میں شک یعنی جھوٹ ہلاک کرتا ہے اور سچ دیتا ہے نجات۔‘‘

اس کی نثر میں مرکب اور ملتف جملے تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور سارے مطالب سادہ مفرد مجلوں میں ادا کئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سب رس‘‘ آج بھی آسانی سے پڑھی اور سمجھی جاسکتی ہے۔

وجہیؔ کی ’’قطب مشتری‘‘ اردو ادبیات میں ایک اہم مثنوی ہے جو 1018ھ 1609)ء) میں لکھی گئی۔

محمد قلی قطب شاہ کو ایک رقاصہ بھاگ متی سے عشق تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کا قصہ اس مثنوی کا موضوع ہے اس میں بھاگ متی کو مشتری کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ مثنوی صرف بیس دن میں مکمل کی گئی تھی اس کا سبب یہ تھا کہ بھاگ متی کی برسی قریب تھی اور اس موقع پر یہ مثنوی پیش کر کے وجہیؔ بادشاہ کوخوش کرنا چاہتا تھا تاکہ اسے انعام و اکرام سے نوازا جاسکے۔ مثنوی حسب رواج حمد خدا سے شروع ہوتی ہے اس کے بعد نعت رسولؐ پھر منقبت علیؓ اور اس کے بعد عشق کی تعریف کی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اچھے شعر میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں، جیسے شعر میں سلاست اورروانی ہونا ضروری ہے۔

اصل مثنوی کا قصہ یوں ہے کہ بری منتوں مرادوں کے بعد بادشاہ ابراہیم کے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ نجومیوں نے اس کی خوش قسمت زندگی کی پیش گوئی کی۔ لڑکا ایسا ہونہار تھا کہ مکتب میں صرف بیس دن تعلیم پانے کے بعد عالم، شاعر اور خوش نویس ہوگیا۔ جوان ہو کر وہ غضب کا خوبرو اور بلا کا طاقتور نکلا۔ اس نے ایک بار ایک حسینہ کو خواب میں دیکھا اور اس پر عاشق ہوگیا۔ بادشاہ کے اشارے پر بہت سی حسیناؤں نے اسے رجھانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ آخر ایک عطارد نامی مصور کو بلایا گیا جس کے پاس بے شمار حسین لڑکیوں کی تصویریں تھیں۔ اس نے مشتری کی تصویر شہزادے کو دکھائی جو دیکھتے ہی اسے پہچان گیا۔ پھر شہزادہ سوداگر کے بھیس میں عطارد کے ساتھ ملک بنگال کی طرف روانہ ہوا جو مشتری کا مستقر تھا۔ راستے میں دیو، سانپ اژدہا، اور راکشس جیسی بلاؤں کا سامنا کرنا پڑا مگر شہزادے نے سب کو زیر کرلیا۔ راکشس کی قید میں حلب کا وزیر زادہ مریخ خاں بھی تھا جو مشتری کی بہن زہرہ پر عاشق تھا۔ شہزادےنے اسے قید سے چھڑایا۔ عطارد، شہزادہ اور مریخ خاں طئے منازل اور قطع مراحل کرتے ہوئے مہتاب پری کے ڈیرے، پرستان پہنچ گئے۔ مہتاب کو شہزاد بہت پسند آیا اور اس نے شہزادے کو اپنا بھائی بنالیا۔ شہزادے کو مہتاب پری کے پاس چھوڑ کر عطارد خود بنگال چلا گیا اور مشتری کا محل تلاش کرلیا۔ اس محل کے نزدیک اس نے اپنا نگار خانہ قائم کیا۔ جب اس کی مصوری کی شہرت ہوئی تو مشتری نے اسے بلا کر اپنے محل کی آرائش کا کام سپرد کیا۔ اس نے دیواروں پر بہترین تصویریں بنائیں اور سب سے نمایاں جگہ شہزادے کی ایسی لاجواب تصوییر بنائی کہ مشتری اسے دیکھ کر بے ہوش ہوگئی اور اس سے عشق کرنے لگی۔ عطارد نے نامہ بھیج کر شہزادے کو بلایا اور دونوں کی ملاقات کرادی۔ مریخ خاں کو یہ انعام ملا کہ اس کی شادی زہرہ سے ہوگئی اور بنگال کی حکومت اسے عطا ہوئی۔ شہزادہ قطب شاہ اور مشتری طویل سفر طے کر کے دکن پہنچے جہاں ان کی دھوم دھام سے شادی ہوگئی۔ ابراہیم شاہ ضعیف ہوچکا تھا اس لیے سلطنت کا تخت و تاج بیٹے کو دے کر گوشہ نشین ہوگیا۔ اس طرح یہ آسمانی سیاروں کے ناموں والی داستان ختم ہوئی۔

اس داستان کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ خود وجہیؔ کے دماغ کی اختراع ہے۔ ہر چند اس کا قصہ محمد قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کے متعلق روایات سے ملتا جلتا ہے لیکن زیب داستاں کے لئے اس میں اتنی کتربیونت کی گئی ہے کہ نہ عاشق کی شکل پہچانی جاتی ہے اور نہ معشوق کی۔ اس لیے بعض اہل تحقیق کو یہ شک ہوا کہ یہ تو کوئی دوسرا ہی قصہ ہے جس کا سلطان سے واسطہ محض قیاس ہے۔ شاید تبدیلی کا یہی منشا رہا ہو کہ ’’سردلبراں‘‘، ’’حدیث دیگراں‘‘ میں اس طرح بیان کیا جائے کہ بات کھل کر سامنے نہ آئے۔

وجہیؔ کے سن پیدائش کی طرح اس کے سن وفات کے بارے میں بھی کوئی یقینی معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ کیاجاتا ہے کہ 1076ھ۔ 1665ء اور 1083ھ۔ 1672ء کے درمیان وہ اس دارفانی سے رخصت ہوا اور اپنے پیچھے ایسی یادگاریں چھوڑ گیا جو اب بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے۔

ملا وجہیؔ نے مرثیے بھی کہے ہیں جو اس زمانے کی مجالس عزاء میں پڑھے جاتے تھے۔ اس کا ایک نوحہ بڑا مقبول تھا جس کا مطلع یہ تھا:

حسینؑ کا غم کرو عزیزاں
نین سے انجھو جھروعزیزاں

ملا وجہیؔ کے اس تعارف کے بعد اب آئیے ذرا ان کی تصویر پر۔ وجہیؔ کی تصویر بڑی تلاش کے بعد دستیاب ہوئی جو ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد کے مولفہ البم کے کنارے پر لگی ہوئی تھی۔ اسی تصویر کو میں نے بنیاد بنا کر اس کا خدوخال اور لباس سے آراستہ کیاہے۔ اس زمانے میں دربار سلطانی سے منسلک شعراء نہایت خوش پوش ہوتے تھے۔ اس لیے وجہیؔ کے قیمتی لباس کو دیکھ کر متعجب نہیں ہونا چاہئے۔ پس منظر میں گولکنڈہ میں واقع ایک مسجد کا حصہ دکھایا گیا ہے جو قطب شاہی فن تعمیر کی نزاکت کا ایک شاہکار ہے۔

 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے