aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مولوی احمد دین پنجاب کے بہت اچھے انشاء پردازوں میں سے تھے۔ان کی مشہور کتاب "سر گزشت الفاظ"پر پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے ان کو انعام دیا تھا،اور علامہ نے اس پر ایک تقریب نامہ بھی لکھا تھا۔ احمد دین کولفظی تحقیقات سے خاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی داغ بیل 1901ء میں ڈالی تھی جب کہ’’ مطالعۂ الفاظ‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک مقالہ دو قسطوں میں مخزن میں شائع ہوا تھا، یہ مقالہ بعد میں قدرے ترمیم کے ساتھ سرگذشتِ الفاظ میں شامل کیا گیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ 1901ء میں جو کام انھوں نے شروع کیا تھا، وہ بائیس برس کے بعد سر گذشتِ الفاظ کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ احمد دین نے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب میں پادری ٹرنچ کی کتاب مطالعۂ الفاظ سے استفادہ کیا ہے۔ دراصل احمد دین کی کتاب کا پورا ڈھانچا وہی ہے جو ٹرنچ کی کتاب کا ہے۔ سرگذشتِ الفاظ کے تمام مطالب، ٹرنچ ہی کی صدائے بازگشت ہیں۔مطالعۂ الفاظ سے استفادہ کہیں لفظی ترجمے کی صورت میں کیا گیا ہے، اور کہیں ٹرنچ کے خیالات کو قدرے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دونو ں کتابوں کے ابواب کی تقسیم اور مطالب کی ترتیب یکساں ہے۔ یہاں تک کہ ابواب کے عنوانات بھی یکساں ہیں۔ ٹرنچ کی کتاب کے تمام نظریاتی مباحث سرگذشتِ الفاظ میں موجود ہیں۔ یہ ایک فائدے مند کتاب ہے جہاں لفظوں کے روٹس سے بہتر واقفیت ہوجاتی ہے۔