Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : حفیظ جالندھری

اشاعت : 002

ناشر : مرکنٹائل پریس، لاہور

مقام اشاعت : لاہور, پاکستان

سن اشاعت : 1937

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : مثنوی

صفحات : 279

معاون : ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد

شاہنامہ اسلام
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

شاہنامہ نویسی کو یقینا مثنوی نگاری کی معراج کہا جا سکتا ہے۔ منظوم شاہنامہ نویسی کی بنیاد دقیقی طوسی سے شروع ہوتی ہے جو سامانی عہد کا ایک غیر معمولی شاعر تھا ۔ ابھی اس نے کوئی ہزار کے قریب ہی اشعار کہے ہونگے کہ وہ اپنے غلام کے ہاتھوں اپنی بدنیتی کے سبب قتل کر دیا گیا۔ اس کے چند سال بعد سے ہی فردوسی نے اس ادھوری ایرانی تاریخ کے مفاخرات کو منظم کرنا شروع کر دیا تھا اور اس نے اس کام کو مکمل کرنے کے لئے اپنی تمام زندگی صرف کردی۔ مسلسل تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس نے اس دنیائے ادب کو ایک ایسی مثنوی فراہم کی کہ جسے دنیا شاہنامہ فردوسی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اگر شاہنامہ نویسی میں کسی کو طرہ امتیاز حاصل ہے تو وہ یہی شاہنامہ ہے۔ اس کے بعد سے ہی شاہنامہ نویسی کی اور شاہنامہ نویسوں کی ایک بڑی تعداد اس میدان میں طبع آزمائی کرتی چلی آرہی ہے اور جدید عہد تک بہت سے شاہنامے اس ادب کو نصیب ہوئے مگر جو وقعت شاہنامہ فردوسی کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی شاہنامے کو میسر نہ آ سکی ۔ اردو زبان میں حفیظ جالندھری نے شاہنامہ کے لئے ایک الگ زمین ہموار کی جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کی فتوحات سے لیکر اس کے ہر ہر پہلو کو نظم کا جامہ پہنایا اور کچھ حد تک یہ جدت لوگوں کو پسند بھی آئی۔ وہیں بہت سے لوگ اس کو شاہنامہ کہنے سے پرہیز کرنے پر مصر ہیں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ اسلامی حکومت کبھی بھی شاہنشاہیت کو قبول نہیں کرتی اس لئے عہد نبوی اور قرون اولی کو ہم شاہنامہ نہیں کہہ سکتے۔ اسی لئے اس کا دوسرا نام "یاد ایام " بھی ہے۔ اس میں اول سے لیکر آخر تک کے اسلامی مفاخرات کے احوال کا ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مفصل احوال بیان کئے گئے ہیں اور اس جلد میں جنگ بدر تک کے کچھ حالات کا ذکر ہے۔ یہ شاہنامہ اردو زبان کا کافی معروف شاہنامہ ہے۔ یہ شاہنامہ اگرچہ فارسی زبان کے شاہنامے کی وقعت کو تو نہیں پہونچتا مگر اردو ادب میں اس جیسا شاہنامہ نہیں لکھا گیا ۔اس لحاظ سے یقینا اس کو ایک اہم اسلامی تاریخ کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کو اخلاقیات کا ایک اعلی نمونہ سمجھا جانا چاہئے۔ یہ شاہنامہ چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ حفیط جالندھری نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

محمد حفیظ نام، حفیظؔ تخلصؔ، 1900ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ شعروشاعری سے فطری مناسبت تھی۔ نوعمری ہی میں اس طرف متوجہ ہوئے اور شعر کہنے لگے مولانا غلام قادرگرامی سے رشتۂ تلمذ قائم کیا۔

وہ شعری کارنامہ جس نے حفیظؔ کو زندۂ جاوید بنا دیا ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ ہے۔ فارسی میں تو شاہنامۂ فردوسی اور مثنوی مولانا روم جیسی بلند پایہ نظمیں موجود ہیں۔ مقدمۂ  شعر و شاعری میں مولانا حالیؔ نے اس پر اظہار افسوس کیا ہے کہ اردو میں کوئی بلند پایہ مثنوی موجود نہیں ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ کی اشاعت سے یہ اعتراض کس حد تک دور ہوگیا ہے۔

تاریخی واقعات کو نظم کرنا اور خاص طور پر ایسے واقعات کو جن سے مذہب کا تعلق ہو اور جن سے کسی قوم کے جذبات وابستہ ہوں دشوار کام ہے۔ کسی واقعے کے بیان میں اصلیت سے سرموانحراف ہوتو قارئین کی برہمی کا باعث ہوسکتے ہیں اور انحراف نہ ہو تو دلکشی پیدا نہیں ہوتی۔ حفیظؔ نے اس طویل نظم میں واقعات بے کم وکاست بیان کیے ہیں۔ مگر طرز نگارش ایسا ہے کہ دلکشی میں کمی نہیں آئی۔ اہل نظر کو اعتراف ہے کہ خشکی اور نثریت اس نظم سے کوسوں دور ہے۔ نظم میں بے شمار ایسے مقام ہیں جن سے قاری کے جوش ایمانی کو تحریک ملتی ہے اور اس کے دل میں ایک ولولہ پیدا ہوجاتا ہے۔

حفیظؔ نے غزلیں بھی کہیں مگر یہ روایتی انداز کی ہیں اور تاثیر سے تقریباً محروم بعض جگہ شاعر و قنوطیت غالب آجاتی ہے۔ غم کا جذبہ بہت شدید ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے مگر یہ غزلیں اس خصوصیت سے بھی محروم ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ یہ غم ان کا اپنا غم نہیں ہے محض سنی سنائی باتیں ہیں۔

حفیظؔ نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں مثلاً ’’نغمۂ راز‘‘ اور ’’سوزوساز‘‘۔ ان نظموں میں فلسفیانہ گہرائی تو نظر نہیں آتی لیکن اسلوب نگارش جاذب نظر ہے۔ نظموں میں انہوں نے نئے تجربے تو نہیں کیے مگر قدیم ہیئتوں کو سلیقے کے ساتھ برتا ہے، مترنم بحریں استعمال کیں ہیں، سبک شیریں الفاظ کا انتخاب کیا ہے اور اپنی نظموں کو سرمایۂ مسرت بنا دیا ہے۔

انہوں نے گیت بھی لکھے اور ایسے گیت لکھے جو تاثیر سے لبریز ہیں۔ یہاں بھی ان کی کامیابی کا راز ہے چھوٹی، سب اور رواں بحروں کا انتخاب۔ ایسے لفظوں کا استعمال جو سماعت کو متاثر کرتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی کشتی کا ملاح اور شہسوار کربلا ان میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو؎
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے
رشک عدن ہے باغ وطن بھی
گل بھی ہیں موجود گل پیرہن بھی
نازک دلاں بھی غنچہ دہن بھی
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے